محرم الحرام کی پہلی تاریخ سے نئے اسلامی سال کا آغاز ہو چکا ہے ، وفاقی حکومت نے 9 اور 10 محرم الحرام کو عام تعطیل کا اعلان کیا ہے، کابینہ ڈویژن نے دو چھٹیوں کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔ نئے اسلامی سال کے آغاز سے ہی مجالس کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ، اس سلسلے میں ہمیں مذہبی آہنگی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے، اصولی طور پر تو اسے مذہبی کی بجائے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا نام دینا زیادہ مناسب ہے کہ ہم سب کا مذہب ایک ہے ، البتہ فرقے الگ الگ ہیں اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بجائے زیادہ مناسب یہ ہے کہ مذہب میں فرقے نہ ہوں اور ہم سب قرآن کے فرمان کے مطابق اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑیں اور فرقوں میں تقسیم ہونے کی بجائے سب ایک ہو جائیں۔ محرم الحرام کے موقع پر حکومت کی طرف سے ہدایات جاری کی جاتی ہیں جن پر توجہ کی ضرورت ہے کہ یہ خود ہمارے اپنے ہی مفاد میں ہیں۔ گزشتہ چار پانچ عشروں سے پاکستان دہشت گردی کی زد میں ہے اور دہشت گردی کے بہت سے واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ ظلم تو یہ ہے کہ دہشت گردوں نے عبادت گاہوں کو بھی نہ بخشا اور مساجد و امام بارگاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا ، اسی بناء پر محرم الحرام میں فول پروف سکیورٹی کے انتظامات انتہائی ضروری ہیں۔ اچھی بات ہے کہ حکومت نے محرم الحرام کے دوران سکیورٹی خدشات کے پیش نظر آرٹیکل 245 کے تحت چاروں صوبوں ، وفاق اور گلگت بلتستان میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ محرم الحرام کے جلوسوں اور اجتماعات کیلئے پاک فوج کے ساتھ دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے سکیورٹی فرائض سر انجام دیں گے ۔ حکومت کی طرف سے وقتاً فوقتاً ہدایات جاری ہوتی رہتی ہیں، چھوٹی چھوتی باتیں ہیں مگر ان کا ذکر اور ان پر عمل اس لئے ضروری ہے کہ اس میں ہمارا اپنا فائدہ ہے۔ مجالس عزا اور جلوسوں میں لوگ کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں ، ان میں اکثریت ان پڑھ اور سادہ لوگوں کی ہوتی ہے وہ اپنے ساتھ غیر ضروری چیزیں بھی لے آتے ہیں، ان چیزوں سے اجتناب ضروری ہے تاکہ ان کی مجالس میں جانے کیلئے سکیورٹی کلیئرنس آسانی سے ہو سکے۔ جلوسوں کے دوران ٹریفک کے مسائل بھی درپیش آتے ہیں، جلوس میں شامل اشخاص اور منتظمین کو چاہئے کہ وہ ٹریفک کی روانی کیلئے متبادل انتظام کریں، خصوصاً ایمبولینس وغیرہ کو گزرنے کی سہولت ملنی چاہئے۔ سخت تقریروں کی وجہ سے حکومت بعض مقررین کی زبان بندی بھی کرتی ہے اور ضلع بندی کے بھی احکامات جاری ہوتے ہیں، اگر سخت اور اشتعال انگیز تقریریں نہ ہوں تو اس طرح کی صورتحال پیش نہ آئے۔ مجالس اور جلوس کے موقع پر سوشل میڈیا کے لوگ ویڈیوز ریکارڈ کرتے ہیں اور بعد میں اس کی تشہیر بھی کی جاتی ہے، عموماً ہوتا یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ اور قابل اعتراض کلپس کی تشہیر زیادہ ہوتی ہے حالانکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر مشتمل باتوں کو اجاگر کیا جانا چاہئے۔ حکومت کی طرف سے جلوسوں کے راستے پر بیرئیر لگائے جاتے ہیں ، دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ چیکنگ کا سٹاف ناتجربہ کاری کے ساتھ ساتھ بے عملی کا بھی شکار ہوتا ہے، ان تمام امور کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ مجالس کے موقع پر ملتان سمیت ملک دیگر شہروں میں لوگ دور دراز سے آتے ہیں، ان میں صاحب حیثیت لوگ ہوٹلوں اور گیسٹ ہائوسز میں قیام کرتے ہیں اور کچھ لوگ فٹ پاتھوں اور پارکوں میں سو جاتے ہیں، ان میں سے بعض کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہوتا جو پولیس کی پوچھ گچھ کے دوران پریشانی کا شکار ہوتے ہیں ، سب کے پاس قومی شناختی کارڈ ہونا ضروری ہے۔ حکومت کی طرف سے جاری ہونے والی ہدایات میں کہا گیا ہے کہ اپنے ارد گرد کے ماحول پر کڑی نظر رکھیں ، لاوارث سامان ، گاڑی اور موٹر سائیکل وغیرہ کی فوری نشاندہی کریں۔ مجالس و جلوس کے روٹ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں نئے کرایہ داران کے بارے میں مقامی پولیس کو آگاہ کریں، مجالس وجلوس کے اختتام پر اکٹھے ہو کر نہ نکلیں بلکہ آہستہ آہستہ منتشر ہوں،سائونڈ سسٹم کے ناجائز استعمال پر قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ حکومت نے صوبہ بھر میں دفعہ 144 کے تحت ہدایات جاری کی ہیں کہ گزشتہ سال ہونے والی مجالس اور جلوس کے روٹس تبدیل نہ کئے جائیں ، کسی بھی قسم کے اسلحہ کی نمائش نہ کی جائے، کسی فرقہ ، کمیونٹی کے خلاف اشتعال انگیز نعرے / تقریر نہ کی جائے۔ جلوس کے راستوں یا ملحقہ علاقے کی چھتوں پر پتھر ، اینٹیں یا نقصان دہ مواد جمع نہ ہو اور9 اور 10 محرم الحرام کو موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی پر عملدرآمد کیا جائے۔ حکومت کی طرف سے یہ بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ ان ہدایات کی خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ قوانین کے تحت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی ۔ غم حسین ؑکے حوالے سے وسیب میں مجالس اور سیمینار زکا سلسلہ جاری ہے۔ حضرت امام عالی مقام کے جہاں فضائل بیان ہو رہے ہیں وہاں ان کے اقوال بھی مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔جھوک سرائیکی میں ہونے والے سیمینار میں کہا گیا کہ غم کو طاقت بنایا جائے، باطل قوتوں سے ٹکرایا جائے اور اپنے ہاتھوں کو یزیدی قوتوں کے خلاف استعمال کیا جائے۔ پروفیسر ڈاکٹر مقبول حسن گیلانی و دیگر مقررین نے کہا کہ واقعہ کربلا کا سرائیکی وسیب سے گہرا تعلق ہے ، یہ بات دعوے سی کہی جا سکتی ہے کہ حضرت امام عالی مقام کی قربانی کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے جتنا مرثیہ سرائیکی زبان میں کہا گیا ہے، دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں کہا گیا ۔ مرثیے کو سرائیکی کی اصناف سخن میں سے ایک معتبر صنف کی حیثیت حاصل ہے اور اس صنف میں ہزاروں سخن ور طبع ازمائی کر چکے ہیں ، ہزار ہا کر رہے ہیں اور سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابیں واقعہ کربلا کی یاد میں لکھی جا چکی ہیں ۔ مرثیہ جس سوز و گداز اور محبت کے ساتھ سرائیکی زبان میں پڑھا اور سنا جاتا ہے کسی اور زبان میں اس کی مثال ملنا بہت مشکل ہے۔