انیسویں صدی میںصیہونیت کے نام پر یہودیوں کی طرف سے ایک فتنہ اٹھا جواستعمار پسند نسل پرست نظریے کاحامل تھا ۔شروفساد کی اس تحریک کے نام پر1948ء میں دنیا بھر سے یہودیوں کولال لایاگیا جس کے بعد اسرائیل کے قیام کااعلان کردیا۔صیہونیت نے اسرائیل کے قیام کے بعد رفتہ رفتہ اہل فلسطین کو با لجبر ان کی سرزمین سے بے دخل کرکے یہودیوں کوان کی ملکیتی زمینوں پر بسایا ۔یوں پورے فلسطین پر یہودی چھاگئے۔ صیہونیت کے اغراض ومقاصد میںکنعان، ارض مقدس اور فلسطین کی سرزمین پر مشتمل یہودیوں کے لئے اسرائیل کے نام پرایک وسیع تراسرائیل کا قیام سرفہرست ہے۔جب ہم ارض فلسطین کوہتھانے کے لئے صیہونیت کی شرمناک کارروائیوں کوسامنے رکھتے ہوئے ارض کشمیرکوہتھانے کے لئے ہندوفسطائیت کی مذموم کارروائیوں کودیکھتے ہیں یادونوں کی وارداتوں کاموازانہ کرتے ہیںتوصاف پتا چل جاتا ہے کہ دونوں کے ناپاک منصوبے ایک جیسے ہیں۔ دونوں کے اغراض ومقاصد بعینہ ای جیسے ہیں۔ اس سارے منظر نامے کوسامنے رکھتے ہوئے اس امر میں کوئی شک باقی نہیں رہتا ہے کہ امرناتھ یاترادراصل کشمیر پر’’ہندوصیہونیت ‘‘ہے ۔اس ہند وصیہونیت نے گذشتہ سات عشروں سے مقبوضہ جموںوکشمیر پرفوجی جارحیت کیساتھ ساتھ یہاں مسلسل تہذیبی جارحیت کا بھی ارتکاب جاری رکھا ہوا ہے اوریہ دونوں جارحیتیں اب آخری مراحل داخل ہو چکی ہیں۔ آج ہم بات کرتے ہیں کہ کس طرح ہندوصیہونیت ارض کشمیر پر پنجے گاڑھے بیٹھی ہے ۔مقبوضہ کشمیر کے جنوبی ضلع اسلام آباد میں کئی معروف سیاحتی مقامات میں سے ایک مشہور سیاحتی مقام ہے جوپہلگام کے نام سے جاناجاتا ہے ۔یہ دلفریب سیاحتی مقام سرینگر سے88کلومیٹر پر واقع ہے ۔ یہاں سے45 کلومیٹر کی دوری پر فلک بوس پہاڑی سلسلوں کے درمیان سطح سمندر سے 3888 فٹ کی بلندی پر واقع پہاڑ میں ایک غار ہے۔اس قدرتی غارکو ہندووں نے ’’امرناتھ گھپا ‘‘کا نام دے رکھا ہے۔ برفیلے علاقے میں موسم ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے برف ایک مخصوص صورت میں جم جاتی ہے، جس کو ہندو دھرم میں ’’شیولنگ‘‘ کہتے ہیں۔ ہندومت کی بنیاد جن دیومالائی کہانیانیوں پر ہے ان میں سے ہندووں نے ایک کہانی یہ بھی گھڑ لی ہے کہ کشمیرکے جنوبی ضلع اسلام آباد میں ان کے گروشیودیوکی رہائش گاہ تھی۔ دیومالائی کہانی کی بنیاد پربھارت بھر سے لاکھوں ہندو ہرسال وادی کشمیر کارخ کرتے ہیں اوروہ اس برفیلے شیولنگ کودیکھنے کے لیے آتے ہیں۔یا یوں کہیں کہ ماہ جون سے اگست تک تین ماہ تک وہ کشمیرپر زعفرانی جھنڈوںکے ساتھ حملہ آورہوجاتے ہیں۔ شفاف اورپر فضا ماحول کوآلودہ کرتے ہیں۔خیال رہے کہ مقبوضہ وادی میں کشمیری ہندووں جنہیں کشمیری پنڈت کہا جاتا ہے کی کل تعداددولاکھ سے زائد نہیں ہے اوروہ بھی سارے کے سارے 1990ء میں جہادکشمیرشروع ہوتے ہی کٹھ پتلی انتظامیہ جواس وقت فسطائی ذہنیت کے گورنرجگ موہن کے ماتحت تھی کی ایما پر وادی کشمیرچھوڑ کرجموں ،دہلی اوربھارت کے دیگر صوبوں میں مقیم ہوئے۔ 1990 ء سے قبل امرناتھ یاتراکی کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی محض چندسو ہندوخاموشی کے ساتھ اس پہاڑی غارتک پہنچ کرخاموشی کے ساتھ واپس چلے جاتے تھے لیکن کشمیرمیں آزادی کے لئے مسلح جدوجہد شروع ہوتے ہی دہلی سرکااورکٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ نے ہندووں کی اس یاتراکوسرکاری طور پر پذیرائی بخشی اوربھارتی ریاستوں سے ہندووں کو بڑے پیمانے پر یہاں بلانا شروع کیا۔ دہلی سرکا اورکٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ نے امرناتھ پہنچانے کے لئے بھارت کے ہندووںکوتمام ترسہولیات دینے کے لئے ہندو شرائن بورڈ قائم کیااوراسے سالانہ کروڑوں روپے فنڈز دیئے جا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیرمیںہندوئوں کی مندروں کے تحفظ اور مرناتھ یاترا کے انتظامات کے لئے بھارت نواز نیشنل کانفرنس کے دور اقتدار میں شری امرناتھ شرائن بورڈ تشکیل دیا گیا تھا۔ 2008ء میں دہلی سرکا اورکٹھ پتلی ریاستی انتظامیہ نے ہندووںکے اس شرائن بورڈ کووادی کشمیرکے ایک بڑے سیاحتی مقام ’’سونہ مرگ‘‘کی کروڑوں مالیت کی کئی ایکڑ اراضی منتقل کی جس کے خلاف اسلامیان کشمیر آتش زیرپا ہوئے۔ اسلامیان کشمیر کا موقف تھاکہ کشمیرکی اراضی کسی بھی طرح ہندووں کے شرائن بورڈ کومنتقل نہیں کی جاسکتی ہے کیوںکہ بھارت کے ہندووں کو ارض کشمیر پرقبضہ جمانے کا کوئی حق نہیں۔اسلامیان کشمیرکے اس احتجاج نے کئی مہینوں تک طول پکڑ اس دوران حالات اس وقت بلکل بے قابوہوئے کہ جب بھارتی قابض فوج نے مظاہرین پراندھادھند فائرنگ کرتے ہوئے بیسیوں کشمیری نوجوانوں کو شہیدکرکے جلیانوالہ باغ کاری پلے کیا۔ اس ظلم عظیم کے باوجو د جب اسلامیان کشمیرکا احتجاج تھم نہ سکا تومقبوضہ جموں وکشمیر میں کانگریس کی سربراہی والی مخلوط کٹھ پتلی حکومت کے کٹھ پتلی وزیر اعلی غلام نبی آزاد کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ تب سے اسلامیان کشمیراورحکومت بھارت کے درمیان امرناتھ کا معاملہ ایک بڑے قضیہ کے ساتھ چلا آرہا ہے ۔اسلامیان کشمیرکا مطالبہ ہے کہ اس یاترا کے لئے بھارتی ہندووں کی بڑے پیمانے پرمقبوضہ کشمیرآمد پرروکا جائے اوراس یاترا کی مدت بھی تین ماہ سے کم کرکے پندرہ دن رکھا جائے تاہم ضدم ضدا پر اتری ہوئی دہلی سرکارکٹھ پتلی کشمیرانتظامیہ پراپنا دبائو برقراررکھے ہوئے ہے کہ وہ اس یاترا میں مذید لاکھوںہندووں کی شمولیت کویقینی بنائے اوراس کی مدت بھی بڑھادی جائے ۔ا س سے صاف ظاہرہو رہا ہے کہ محض ایک دیومالائی کہانی گھڑ کر بھارت کشمیر پرکس طرح تہذیبی جارحیت کوفروغ دے رہا ہے ۔اس کے سامنے کشمیریوںکی چیخ وپکار،احتجاج اوران کی شہادتیںکوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔