حجاج بن یوسف کے روبرو کھڑے ہو کر چند مصاحبین نے دریافت کیا آپ اگر عمر بن خطابؓ کی طرح حکمرانی کریں تو تاریخ میں امر ہو جائیں گے۔ حجاج بن یوسف نے برجستہ کہا اگر آپ لوگوں سمیت رعایا ابوذرغفاری ؓبن جائے تو میں عمرؓ بن جائوں گا۔ آج میں سوچ رہا ہوں۔75سال کی مسافت کے بعد من حیث القوم ہماری پسپائی صاف لکھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں قیادت کے لئے کوئی ایسا بندہ خدا نہ ملا جس کے عمل اور گفتار میں تضاد نہ ہو اور جو اندر اور باہر سے دورنگا نہ ہو۔ سچ جانیں تو اب یہ امید ختم ہو گئی ہے کہ ہم آبرومندانہ انداز سے آگے بڑھنے کے قابل رہے ہیں۔اگر آپ میری بات سے اتفاق نہیں کرتے تو کوئی ایک نام ایسا لیں جس نے قوم تعمیر کی ہو کوئی نیا قابل عمل نظام دیا ہو کسی سسٹم کی اصلاح کی ہو۔کسی نے بلا تفریق انصاف کا نظام وضع کیا ہوکسی نے بھی تو نہ انصاف نہ تعلیم نہ صحت نہ غربت نہ طبقاتی تفریق ختم کی اور نہ ہی معاشی عدل قائم کیاہو۔ زندگی کا کون سا حصہ ہے جس میں تقسیم در تقسیم کا عمل اپنے عروج پر نہ ہو اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا حزب اقتدار اور حزب اختلاف باہمی اختلافات سے آگے نکل کر آ ستینیںچڑھائے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ ایک دوسرے کو ملک کے لئے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔جس نظام میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ نظام انسانی صلاحیتوں کی بربادی کا مجرم ہے۔تاریخ میں صرف وہی حکمران زندہ رہتے ہیں جو قانون بناتے ہیں جو مظلوموں کے آنسو پونچھتے ہیں جو ظالم کا راستہ روکتے ہیں ۔جس ملک کا سیاستدان بددیانت ، حکمران لالچی ،دانشور چور ، بیورو کریسی اپنی جیبیں بھرنے کی فکر میں ہو جس ملک کا صحافی اپنی مخصوص سوچ و فکر کا اسیر ہو ،جس ملک کا تاجر منافع خور اور ملاوٹ کا مرتکب ہو ۔جس ملک کے لوگوں میں اکثریت کے لئے خیر و شر میں کوئی تمیز نہ ہو اس ملک میں خیر کہاں سے آئے گی۔ ہم آج حکومت ‘ حزب اختلاف‘ اہم اداروں اور عوام میں جو تقسیم در تقسیم اور بے چینی کا منظر دیکھ رہے ہیں در حقیقت یہ عمومی محرومیوں اور اس تفریق کا نتیجہ ہے جس نے درمیان میں رنجشوں کدورتوں اور نفرتوں کی دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔یہ ہیجان درحقیقت تبدیلی کا پہلا ورق ہوتا ہے۔ذرا اندازہ کیجیے پاکستان میں گزشتہ پانچ سال میں 7لاکھ افراد ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔کیا کوئی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ قوموں کا سرمایہ کھیت‘ فیکٹریاں، گاڑیاں، ادارے اور نوٹوں سے لبالب تجوریاں نہیں ،لوگ ہوتے ہیں۔ اپنے ملک سے محبت کرنے والے ہنر مند لوگ ۔کسی قوم کا ایک دانشور عالم یا سائنسدان حالات سے پریشان ہو کر نقل مکانی ک جائے تو اس قوم سے بڑی قلاش قوم کوئی اور نہیں ،خواہ اس کے سارے پہاڑ سونا بن جائیں۔ یہاں میں ایک سوال کرتا ہوں اتنے بڑے بڑے گورنر ہائوسز وزیر اعظم ہائوس ایوان صدر پارلیمنٹ ہائوس اور پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کی موجودگی میں کوئی اس ملک کو غریب کہہ سکتا ہے اور اگر یہ غریب ہے تو پھر حکمران طبقے کو اس عیاشی پر ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں احتجاج کرنے والا بچا ہے نہ احتساب کرنے والا۔اس شیٹ پر نظر ڈال لیں جن میں ان سینکڑوں معززین کے نام جگمگا رہے ہوں گے جنہوں نے اپنے کروڑوں اربوں روپے کے قرض معاف کرائے ذرا ان صاحبان کے غیر ملکی خفیہ اکائونٹس اور پوشیدہ جائیدادوں کی تحقیقی رپورٹ پڑھ لیں آپ ذرا بیورو کریسی کے ان عہدیداروں کی جائیدادوں کا ریکارڈ حاصل کر لیں۔فوج اور عدلیہ کے اعلیٰ عہدوں پر فائز معززین کے بنک اکائونٹس اور زرعی اور رہائشی زمینوں کی ملکیت کا ریکارڈ نکال لیں آپ ملک کے پورے ڈھانچے میں مختلف عہدوں پر فائز آفیسران کی کرپشن کی کوئی تحقیقی رپورٹ تیار کر لیں آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے کرپشن کے نت نئے ریکارڈ قائم کرنے والے سرکاری عہدیداروں کے خلاف آخر کوئی انگلی کیوں نہیں اٹھاتا ارکان اسمبلی کی جائیدادوں پر نظر ڈال لیں ۔ہمارے ہاں سیاست ایک بزنس کا روپ دھار چکے ہیں۔یہ ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری اور دوسری کو چھوڑ کر تیسری میں شمولیت اختیار کرتے رہتے ہیں ا۔سٹیٹ بک کی طرف سے نادہندہ قرار دیے جانے کے باوجود ان کی مضبوط کرسی پر کوئی لرزہ طاری نہیں ہوتا ان کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا کوئی انہیں پکڑ نہیں سکتا کوئی سزا نہیں دے سکتا فارنن فنڈنگ ہو ،منی لانڈرنگ ہو ،مس ڈیکلریشن ہو، پاکستان میں قانون طاقتور کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔عمران خان‘ نواز شریف‘ آصف علی زرداری‘ مولانا فضل الرحمن سب کہتے ہیں کہ ملک کو ایک فلاحی ریاست ہونا چاہیے اس ملک میں شریعت نافذ ہونی چاہیے عمران خان کا دعویٰ تھا اقتدار ملا تو وہ پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرح چلائیں گے۔ کیا ان کے دعوے کے مطابق ملک کا حکمران اور عام شہری ایک اسٹیٹس پر آ گئے۔کیا ان کے چار سالہ دور حکومت میں کسی سے اس کے کرپشن کے ذرائع پوچھے گئے، کیا طاقتور اور کمزور کا فرق مٹ گیا ،کیا غریب اور امیر کی تفریق کم ہوئی کیا چودھری اور مزارع کی تفریق مٹ گئی کیا ان کے دور میں حکمرانوں نے تمام پاکستانیوں کو ایک نظر ایک سطح اور ایک زاویے سے دیکھا۔ہوٹر بجنے بند ہو گئے۔50لاکھ گھر او ایک کروڑ نوکریاں مل گئیں ،موجودہ حکومت نے اقتدار میں آ کر یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ وہ ملک کو معاشی بحران اور دلدل سے نکالیں گے۔ آج کیا کیفیت ہے پاکستان کی اکثریت کے لئے دو وقت کے روٹی ایک مسئلہ بن گئی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ حکومت عام لوگوں سے کوئی بدلہ لے رہی ہے اسی لئے تو مہنگائی ان کی سیاسی ساکھ کے لئے Killerبن گئی ہے۔ اسی لئے تو آج عام پاکستان عمران خان کے دور کی بدحالی بھول گیا ہے۔آپ جو چاہیں بیانیے بنائیں عام پاکستانیوں کو اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ ایکسپورٹ امپورٹ کیا ہے ڈالر کی اڑان کتنی اونچی ہے افراط زر کیوں بڑھتا ہے کساد بازاری کی وجوہات کیا ہیں اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ آج پاکستان میں مڈل کلاس کا خاتمہ ہو گیا۔یہ غریب ہو گئے ہیں اور غریب بھکاری بن گیا ہے حکمرانوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ عام آدمی تو آپ سے اسی وقت راضی ہو گا جب اس کی زندگی میں کچھ آسانیاں پیدا ہوں گی اس کے بچوں کے لئے تعلیم صحت اور ملازمتوں کے بہتر مواقع ہوں گے۔ملک میں امن و سکون ہو گا۔عدالتیں ہر سیاسی معاملے کا سومٹو لے رہی ہیں کسی اس بات کا بھی جائزہ لے لیں کہ بے لگام مہنگائی کو قابو کرنے کے لئے کیا طریقہ اپنایا جائے۔پرائز کنٹرول کا کوئی مربوط مضبوط اور سخت نظام ہو۔ہمارے تمام سیاسی اکابرین نے اتنی پولرائزیشن کر دی ہے کہ پورے ملک کے ہر شعبے میں تقسیم در تقسیم کے عمل نے ملک کی یکجہتی کو دائو پر لگا دیا ہے سب اپنی ذات میں سمٹ گئے ہیں مگر یاد رکھیں اس نظام جو جو لیڈر کو برہمن اور عوام کو شودر بنا دیتا ہے ختم کر دیں ورنہ یہ سوچ اور نظام آپ کو مٹا دے گا۔کہ بارود کا لباس پہن کر آگ کے قریب کھڑے ہونے والے لوگ زیادہ دیر زندہ نہیں رہتے۔