مکرمی ! احساس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن کبھی کبھی یہ شعور ایک موڑ پر آ کر بہت تکلیف کا باعث بن جاتا ہے۔ جب ہم ماں کے آنچل سے نکل کر کسی اور کے ہو جاتے ہیںتو رشتوں کے تبدیل ہوتے ہی احساس بھی تبدیل ہو جاتے ہیں پھر وہ احساس دوبارہ جنم لیتا ہے جب وہی اولاد خود ماں اور باپ کے روپ میں آتی ہے۔ پیار بھی تو ایک احساس ہے جو ایک دوسرے کا خیال رکھنے پر ضد کرتا ہے۔ ایک کہتا ہے کہ تم اپنا خیال رکھا کرو ۔ وقت پر کھایا کرو اور سو جایا کرگا بس یہ حسین اور پیاری پیاری باتیں اور یہ احساس ہمیں ایک دوسرے جوڑے رکھتا ہے اور زندگی اسی احساس کے ساتھ باغ باغ ہو جاتی ہے۔احساس نے ہی انسانیت کو جوڑ رکھا ہے جس دن میرے اور آپ کے دل سے احساس ختم ہو گیا اس دن انسانیت ختم ہو جائے گی۔ یہ احساس ہی تو سب سے اہم چیز ہے جو آج ہمارے معاشرے میں ختم ہوتا جا رہا ہے اور آج اپنے ہی لوگوں کے رویے ہم سے برداشت نہیں ہوتے انکی چھوٹی چھوٹی باتیں ہمیں بہت ناگوار محسوس ہوتی ہیں۔ماں باپ کی ذرا سی ڈانٹ اولاد کو باغی بنا دیتی ہے۔ہمارے دلوں سے ہمارے مسلمان بھائیوں کا احساس ہی تو ختم ہوگیا ہے جو آج ہمارے حکمران کشمیر ،برما اور فلسطین کے مسلمانوں کے لیے چپ ہیں انہیں اپنا فرض نظر ہی نہیں آرہا۔ ہماری ہی تاریخ میں کیسے کسیے مسلمان حکمران گزرے ہیں حضرت عمر فاروق رضہ اللہ تعالیٰ عنہ کی کیسی فکر تھی کیا احساس تھا انکے دل میں اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے کے رات کو آرام کے بجائے ریاست میں گشت کرتے تھے یہ احساس اور فکر آج مجھ میں اور آپ میں کہاں ہے ہمارے حکمرانوں میں کہاں ہے؟ (ریحانہ کامران کراچی)