اس کے تحت بھارتی حکومت نے پہلے ہی 12سے 17اکتوبر 1947کے درمیان آرمی کی 50ویں پیرا شو ٹ بریگیڈ کے 4کمانڈو پلاٹون اور پٹیالہ پولیس کے دستے کشمیر بھیج دئے تھے۔جنہوں نے سرینگر ہوائی اڈے کو گھیرے میںلے رکھا تھا۔ لیمب نے بھی اپنی کتابkashmir-Birth of a Tragedyکے چھٹے باب میں دستاویز الحاق پر سوالات اٹھائے ہیں۔ کیونکہ نا معلوم وجوہات کی بنا پر بھارت نے اس کو وزرات داخلہ کی جانب سے 1948 میں شائع وائیٹ پپر ان اسٹیٹس میں شامل نہیں کیا تھا۔ نہ ہی یہ ان دستاویزات میں شامل تھا جو حکومت نے اسی سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجے تھے۔ محققین کو بھی اس تک رسائی نہیں دی تھی۔ 2005میں جب بھارت میں معلومات کے حق کا قانون پاس ہوا تو اس کا استعمال کرکے میں نے اس دستاویز الحاق اور سپریم کورٹ رجسٹری سے جے کے ایل ایف کے سربراہ مقبول بٹ کی کیس فائل کا مطالعہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی ، جو قومی سلامتی کا حوالہ دیکر خارج کی گئی۔ وی پی مینن،جو بھارت سرکار کے ریاستوں سے متعلق امور کے محکمے کے سربرا ہ تھے اورجن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انہوں نے دستاویز الحاق پر مہاراجہ کے دستخط حاصل کئے،اپنی کتابIntegration of Statesمیں رقمطراز ہیںکہ وہ اس دن یعنی26اکتوبر کو دہلی سے بذریعہ ہوائی جہاز جموں آئے اور جموں میں دستاویز الحاق پر مہاراجہ کے دستخط لئے اور واپس دہلی چلے گئے۔مگر لیمب کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ کسی بھی طرح صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ 26اکتوبر کی صبح ہی مہاراجہ اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر چھوڑ کر جموں کی جانب روانہ ہوا اور جموں سرینگر شاہراہ،جسے ان دنوں بانہال کارٹ روڈ کہاجاتا تھا،کی حالت دیکھتے ہوئے اور ان عینی شاہدین،جنہوں نے مہاراجہ کے کاررواں کو راستے میں جاتے ہوئے دیکھا،کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہاراجہ کیلئے شام7بجے سے قبل جموں پہنچنا ناممکن تھااور چونکہ ان دنوں جموں ہوائی اڈے پر شبانہ پرواز بھرنے اور اترنے کی سہولت میسر نہ تھی تو اس کو دیکھتے ہوئے یہ ناممکنات میں سے ہے کہ کوئی شخص دہلی سے جموں آئے اور شام کو جموں میں مہاراجہ کے دستخط لیکر رات کو ہی واپس دہلی چلاجائے۔ایک طرح سے انہوں نے مینن کے دعوے کی ہوا ہی نکال دی تھی۔ اتنا ہی نہیں،برطانوی ہائی کمیشن کے ریکارڈLP&S/13/1845b,ff 283-95-India office recordsکے مطابق اس وقت کے برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنربرائے بھارت،الیگزنڈرا سائمن 26اکتوبرکو دلی میں مینن سے ملے اور انہیں بتایا گیا کہ وہ27اکتوبر کو جموں جارہے ہیں، یعنی بھارتی فوج کی لینڈنگ کے بعد دستاویز الحاق پر دستخط کروائے جا رہے تھے۔ بھارتی حکومت کی طرف سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر دستاویز الحاق کی اصل کاپی کو خفیہ رکھنے سے لیمب کی اس دستاویز کی عدم موجودگی کی تھیوری کو تقویت ملتی تھی۔ بی بی سی سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مصنف اینڈریو وائٹ ہیڈ نے بھی کئی بار اس دستاویز کو دیکھنے اورمطالعہ کرنے کی درخواست کی تھی، جو مسترد کر دی گئی۔ مجھے یاد ہے کہ دہلی میں نیشنل آرکائیوز کے تہہ خانہ کے ایک کونے کی الماری میں بقیہ تمام ریاستوں کے دستاویز الحاق عوام اور محققین کے مطالعہ کیلئے رکھے ہوئے تھے اور ان میں بس کشمیر کی دستاویز غائب تھی۔ 2010میں جب معروف ماہر تعلیم اور سابق وائس چانسلر اور مورخ مشیر الحسن کو نیشنل آرکائیوز کا سربراہ بنایا گیا تو نورانی صاحب کی ایما پر اپنے دفتر میں انہوں نے مجھے اس دستاویز الحاق کا مطالعہ کرنے کی اجازت دے دی۔ مگر اس کی کاپی یا فوٹو کھینچنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی۔ آخر بھارتی حکومت اس کو کیوں خفیہ رکھنا چاہتی تھی،و ہ خود بھی اس پر حیران و پریشان تھے۔ 2016میں رائٹ ٹو انفارمیشن مہم چلانے والے کارکن وینکٹیش نائک نے اس دستاویز تک باقاعدہ رسائی حاصل کی۔ دستاویز کے آخر میں گورنر جنرل کے دستخط سے قبل ٹائپ کیا ہوا اگست کاٹ کر ہاتھ سے سبز روشنائی سے اکتوبر کیا گیا ہے۔ ان کے دستخط بھی سبز روشنائی میں ہیں۔ مگر دستاویز کے اندر نیلی روشنائی میں خالی جگہ کو پر کرکے اندر مہندر راجیشور شری ہری سنگھ والیء جموں و کشمیر لکھا گیا ہے اور ٹائپ شدہ 26اگست کاٹ کر اکتوبر کیا گیا ہے۔ اس کی ایک ہی توجیہہ ہوسکتی ہے کہ شاید گوپال سوامی آئینگر نے ستمبر میں ہی مہاراجہ سے دستاویز پر دستخط حاصل کئے ہونگے، باقی اکتوبر میں گورنر جنرل سے دستخط حاصل کئے گئے۔ یعنی یہ دستاویز پہلے ہی شاید دہلی میں موجود تھی۔خیر تحقیق میں ان چند لغزشات کے باوجود السٹر لیمب کو ممتاز تاریخ دانوں میں شمار کیا جائیگا۔ اسکالر ایان کوپلینڈ کے مطابق ان کو مکمل تحقیق اور تفصیل حاصل کرنے میں ملکہ حاصل تھا۔ پرشوتم مہرا نے انہیں امتیازی اور عظیم مورخ قرار دیا ہے، جن کا کام مکمل اور محنت سے پر تھا۔مصنف وکٹوریہ شوفیلڈ کے مطابق لیمب نے کامیابی کے ساتھ اہم مسائل اور غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لیمب کا کام حقائق سے اتنا بھرا ہوا ہے کہ ہر باب کے ساتھ اضافی نوٹ فراہم کیے گئے ہیں۔ لیوراس ایچ منرو کا کہنا ہے کہ لیمب نے کشمیر کی مستند تاریخ لکھی ہے۔ منرو نے لکھا ہے کہ لیمب کشمیر کو پیچیدگیوں کے گرداب میںڈالنے کیلئے اپنے ہی ہم وطن ماؤنٹ بیٹن کو بھی مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ وکٹر کیرن کے مطابق لیمب جنوبی ایشیا پر ایک اعلیٰ ترین اتھارٹی ہے۔ مورخ ہیو ٹنکر نوٹس کا کہنا ہے گو کہ لیمب نے کشمیر کی سیاسی تاریخ کو ''ماہرانہ انداز'' میں بیان کیا ہے، مگر ان کا کہنا ہے کہ بھارتی محقیقین ان کی تھیوری کو قبول نہیں کرینگے، جو کشمیر کو سیکولرازم کے امتحان کے طور پر دیکھتے ہیں۔مورخ سری ناتھ راگھون کا کہنا ہے کہ یہ دریافت لیمب کے ہی سر جاتی ہے کہ کشمیر کے الحاق کے معاہدے پر 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی فوجوں کے اترنے کے بعد دستخط ہوئے تھے۔ خیر یہ پوری داستان اور تھیوریز کی بس اب ایک اکیڈیمک ویلیو ہی ہے۔ جس طرح جوزف کاربل نے 1954میں کشمیر کو عالم امن کیلئے ایک خطرہ بتایا تھا، و ہ خطرہ اور عوامل اب بھی برقرار ہیں اور ان میں کچھ زیادہ ہی شدت آگئی ہے ۔کیونکہ اس خطے کے تین ممالک بھارت،پاکستان اور چین جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور کسی کشیدگی کی صورت میں پورا خطہ تباہ و برباد ہوسکتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس مسئلہ کا فریقین کی مرضی اور رضامندی کے ساتھ پر امن طور پر کوئی حل نکالا جاتا، امن و امان کی راہیں نکالی جاتیں اور یہ ممالک غربت اور معاشی صورت حال پر توجہ دیکر شاہراہ ترقی پر گامزن ہوجاتے اور کشمیر کو وسط ایشیاء کے ساتھ روابط کا ایک ذریعہ بناتے۔ بقول لیمب اس کا ایک ہی راستہ ہے کہ کشمیر پر ایک بھرپور بحث ہو ۔ اپنی کتاب Incomplete Partition کے اختتام پر وہ لکھتے ہیں کہ ہر ایک کا ہر ایک نکتے پر باقی سب کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ مسئلہ کے تمام پہلوؤں پربحث کرکے ان کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ ان کے مطابق ان کی تحقیق کا مقصد کشمیر پر کوئی پتھر کی لکیر کھینچنا نہیں ہے، بلکہ تاریخی اور آرکائیول شوا ہد کو سامنے لاکر ان پر بحث کرانا ہے۔ اس ایشو پر ایک کھلے ذہن کے ساتھ ایک معروضی بحث و مباحثہ کروانا یقینا مورخ کشمیر السٹر لیمب کیلئے سب سے بڑا خراج عقیدت ہوگا۔