نیشنل مشائخ کونسل کے چیرمین خواجہ غلام قطب الدین فریدی صاحب علم و فضل اور فکروفن ہونے کے باوصف بذلہ سنج، خوش کن اور خوشگوار شخصیت کے حامل اور جملہ چست کرنے میں کائیاں ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز ایک "ٹینڈرنوٹس" جس میں پیش آمدہ ماہِ رمضان المبارک کے چاند کی رویت کے اجلاس، منعقدہ 22 مارچ2023ء کے لیے اچھی شہرت کی حامل فرموں سے، دم پخت بمعہ چاول، نارنجی رائس بمعہ بیف، مکس و یجیٹیبل، چکن تکہ بوٹی، سیخ کباب، رشیئن سیلڈ، فریش سلاد، حلوہ سمیت 11 آئٹمز، جن سے رات کے کھانے کا دسترخوان آراستہ ہوگا، کیلئے کوٹیشنز طلب کی گئی ہیں، جبکہ استقبالیہ چائے کے لیے بلیک ٹی، وَن بائٹ پیسٹری، وَن بائٹ پیٹیز، وَن بائٹ سینڈوِچ اور بسکٹ شامل ہیں، واٹس اَپ کرتے ہوئے خواجہ صاحب نے تحریر کیا ہے کہ "اگر رویت ِہلال کے اجلاس کے لیے آپ نے بھی ایسا ہی مینیو ترتیب دیا ہے تو مجھے ضرور یاد فرمایئے گے۔" بہر حال یہ خواجہ صاحب کی خوش طبعی بھی تھی اور دردمندی و دلسوزی بھی، کہ معروضی حالات شدّت سے اس امر کے متقاضی ہیں کہ خود انحصاری اور کفایت شعاری کا اہتمام ہو اور پنجاب حکومت تو نہایت پختہ عزم کے ساتھ اس پر گامزن ہے، اس نے تو جشن بہاراں کی سات روزہ تقریبات، سرکاری خزانے پہ بوجھ ڈالے بغیر ایسے شاندار اور پْرشکوہ انداز سے منعقد کر ڈالیں کہ مدتوں یاد رہیں گی۔ از خود ہمارے محکمے نے ماہ ِ فروری کا اوقاف" نیوز لیٹر" محکمے پہ کوئی مالی بوجھ ڈالے بغیر طبع کروادیا، رمضان المبارک کی آمد پر مساجد میں قالین، مصلّے، صفیں، سفیدی اور رنگ و روغن جیسے امور، ہم نے لوکل کمیونٹی کے ساتھ مل کر پایہ تکمیل تک پہنچالیے، جس میں داتا دربار مسجد کے مین ہال کا 12540 سکوئر فٹ کا جائے نماز قالین بھی شامل ہے، جس کی مالیت پچیس لاکھ روپے سے زائد ہے اور اسے مدینہ فاؤنڈیشن کے اشتراک سے ممکن بنا یا گیا ہے۔ رمضان میں سحر و افطار دسترخوان سے پہلے، مخیر اداروں و احباب کے تعاون سے "رمضان گفٹ پیکٹ" تیار کرلیے، جس کی ترسیل کا اہتمام نمائندہ مزاراتِ مقدسہ سے ہوگا۔ جس کا مقصد موجودہ مشکل حالات میں روزہ داروں کے لیے روز مرہ کی اشیائے خوردونوش کی فراہمی ہے۔ بہر حال لاہور میں اس وقت میلہ چراغاں اور جشن بہاراں باہم متصل ہیں، یقینا وہ خطّے اور قریے بہت بختوں والے ہوتے ہیں، جو صوفیوں اوربزرگوں کے وجود سے معمور اور منور ہوں،لاہور اس حوالے سے بہت بلند بخت ہے کہ اس میں، بہت سی عظیم المرتبت اور رفیع الشان ہستیاں آسودہ ہیں، جن میں سے ایک…ہمارے ممدوح،ممتازصوفی بزرگ اورپنجابی زبان کے عظیم شاعر حضرت شاہ حسین ؒقادری،لاہور ی ہیں … جن کے435ویں سالانہ عرس مبارک اور اس سے متصل میلہ چراغاں کا آج آخری روز ہے۔ 1880ء میں عرس کے ساتھ اس تجارتی اور ثقافتی میلے کا پھیلاؤ،باغبانپورہ لاہور میں حضرت شاہ حسین ؒ کی خانقاہ تک آن پہنچاتھا،دوسری طرف بہار کی نئی کونپلیں،گلوں کے نو بنو رنگوں کو لیے، بادِ نو کے ساتھ عرس اور میلے کے اس امتزاج کو دو آتشہ کرنے لگ گئی تھیں،گزشتہ ادوار میں، ان بہاروں اورچراغوں کی لَو ذرا مدھم ہونے اور اس خاص تہوار سے وابستہ رونقیں کچھ ماند پڑنے کوتھیں، تاہم اس سال جشن بہاراں کے میلہ چراغاں کا دائرہ بھی وسعت پذیر ہوا۔جس میں حضرت شاہ حسینؒ کے شخصی اوصاف وکمالات اور احوال وافکار کے نت نئے زاویوں کا بڑا دخل ہے۔ عصرِ حاضر میں تصوّف کو دین سے جدا کرکے پیش کرنے والے جدید اور روشن خیال مبلغین اوربعض غیر محتاط مصنفین نے حضرت شاہ حسین ؒ کی آزاد مشربی کی داستانیں بیان کرکے ان کی شخصیت کو جس طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کسی طرح بھی موزوں نہیں۔ حضرت شاہ حسینؒ ابتدائی طور پر روایتی دینی درسیات کے باقاعدہ طالب علم اور تصوّف کے معروف سلسلہ’’قادریہ‘‘کے شیخ طریقت تھے۔ ہر بڑی شخصیت فکری اور روحانی طور پر مختلف کیفیات اور ادوار سے گزرتی ہے،ایسے ہی مراحل حضر ت شاہ حسین ؒ کی زندگی میں بھی ہوسکتے ہیں، لیکن کسی مختصر دورانیے کو ان کی ساری زندگی پر محیط کرکے ان کی شخصیت کے تاثر کو تبدیل کرنا مناسب نہیں ۔حضرت شاہ حسینؒ محنتِ شاقہ اور ریاضتِ کاملہ کے ذریعہ انسان کو ’’فنا فی اللہ‘‘ہونے کا راستہ دکھاتے اور وصالِ حقیقی کو مقصد حیات سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ’’عشق کا راستہ سوئی کے ناکے کی طرح ہے، اس ناکے میں سے دھاگہ ہی گزر تا ہے، اور دھاگے کا سا پیکر تو انسان کو ریاضتِ شاقہ ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ حضرت شاہ حسین ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص مسلسل ریاضت سے دنیا کو تج دے، وہی واصل حق ہونے کا مرتبہ پانے کا اہل ہے۔ حضرت شاہ حسینؒ اور آپ کے قبیل کے دیگر صوفیا تزکیہ وطہارت اور باطنی پاکیزگی کی تلقین کرتے ہیں۔ کہ تزکیہ باطن ہی ایک ایسا عمل ہے، جس سے انسان صحیح معنوں میں اللہ کا قرب پاسکتا ہے۔ حضر ت شاہ حسینؒ سوسائٹی کو اخلاقی اعتبار سے مضبوط اور مستحکم دیکھنے کے خواہاں ہیں، جس کے لیے وہ اپنے کلام اور افکار میں جگہ جگہ نیکی کی راہ پر چلنے اور بدی سے اجتناب کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آپؒ کی کافیوں کے موضوعات میں ’’خدا اورانسان، انسان اور انسان،راہِ سلوک کی مشکلات، فقر وفنا، ترکِ دنیا‘‘ بطورِ خاص اہم ہیں، وہ اپنی شاعری کے ذریعے انسان کو مسلسل جد وجہداور پیہم عمل کی تلقین کرتے ہیں، جس کے لیے’’گْھم چرخڑیا‘‘یعنی چرخے کے مسلسل گھومنے کو بطور استعارہ استعمال کرکے ہمہ وقت بر سرِکاراور جْہد مسلسل کی تلقین کرتے ہیں۔ عورت کی زندگی سے تعلق رکھنے والی بعض علامات جیسے سْسرال کو عاقبت اور اگلا جہان، داج کو عمل اور توشہ آخرت،ڈولی کو سفرِ آخرت کی تیاری، بابل کے گھر کو دنیا اور رات کو عمر اور زندگی سے تعبیر کرکے دنیا کی بے ثباتی اور آخرت کی بات کرتے ہیں۔حضرت شاہ حسین ؒ کے والدین کا پیشہ ’’پارچہ بافی‘‘تھا۔ اس پیشے کی علامات کو آپ ؒ نے اپنی شاعری میں استعمال کیا تواْس سے شاعری میں مقامی رنگ غالب آیا اور آپ کی شاعری کو اور زیادہ پذیرائی میسر آئی، جیسے چرخا کو جسم، تانا بانا کو جسمانی عناصر،کاتنا کو اعمال، پنج پونیاں کو نمازِ پنجگانہ، سات پونیاں کو تہجد واشراق سمیت پنجگانہ نماز،لیکھا کو یوم آخرت کے حساب اور ادھا ر پونچی کو زندگی وغیرہ کی معنی خیز علامتوں سے تعبیر کرکے، دنیا کی حقیقت اور موت کی یاد،جیسے فکری عوامل کو راسخ کرنے کی کوشش کی۔ یقینا ایسا ہونا بھی چاہیے کہ شاہ حسینؒ کی ابتدائی تعلیم وتربیت روایتی دینی ماحول میں ہوئی اور پھر ان کی زندگی زہد واتقا اور تقشف وریاضت میں ڈھل گئی،سارا دن قرآنی مطالعے،صوم وصلوٰۃ اور راتیں داتا کے مزار پر کٹتیں اور پھر ان کی زندگی میں ایک عارضی سا دورانیہ ایسا بھی آیا جب ان کی نغمہ ریزیوں نے لاہور کی فضاؤں کو مْر تعش کردیا ۔ اگر ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے تو پھر حضرت شاہ حسینؒ اْ س مقامِ رفیع پر فائز ہوئے کہ ان کے عہد کی جلیل القدر ہستی ملّا عبدالحکیم سیالکوٹی ان سے اکتسابِ فیض کے لیے ملتجی، حضرت مجدّد الفِ ثانی کے مرید خاص الشیخ طاہر لاہوری ان کے مزار سے استمداد کے خواہاں اور جہانگیر کی ان سے عقیدت وارادت معتبر تاریخی حوالوں کے ساتھ محفوظ ہوئی،بلکہ داراشکوہ نے اپنی تصنیف ’’شطحیاتِ دارا‘‘میں مزید لکھا ہے کہ شہزادہ سلیم نے بہادر خاں نامی اپنے ایک کارِ خاص کو حضرت شاہ حسینؒ کے لیے مامور کررکھا تھا،جو آپؒ کی روزانہ کی ڈائری قلمبند کرتا، جو ’’بہاریہ‘‘کے نام سے معروف ہوئی۔ مختلف سوانح نگاروں کی طرف سے، آپ ؒ کے مرید خاص مادھولال کے ساتھ آپ کے تعلق پر عدم احتیاط ایک افسوسناک با ب ہے۔ حضرت شاہ حسین ؒ کی ولادت 1538ء یا1539ء جبکہ مادھولال کا سنِ ولادت 1576ء ہے۔جس کا مطلب ہے وہ عمر میں حضرت شاہ حسینؒ سے 38سال چھوٹے …جتنا کم از کم ایک بیٹا اپنے باپ سے ہوتا ہے۔اگرمادھو سولہ سترہ سال کی عمر میں بھی حضرت شاہ حسین ؒ سے ملا ہو تو اس وقت حضرت شاہ حسینؒ کی عمر پچپن سال ہوگی، عمروں کے اس تفاوت کے ساتھ ان کے درمیان کسی رومانی تعلق کا تصور محال ہے اور اگر ایسا تھا تو شاہ حسینؒ کے پورے کلام میں بھی اس’’رومانس‘‘کا کسی جگہ کوئی اشارہ یا کنایہ موجود ہوتا۔ در اصل مادھو حضرت شاہ حسینؒ سے ویسی ہی عقیدت وارادت اورنیازمندی رکھتا تھا، جیسی ایک مریدکو اپنے شیخ کامل اور شاگردکو اپنے اْستاد سے ہوتی ہے، ایسی عقیدت ومحبت کے جواب میں شیخ اور استاد کا التفات ایک فطری اور لازمی امر ہے،جوکہ حضرت شاہ حسینؒ کا مادھو کی طرف تھا۔