3دسمبر 1991ء کو لاہور میں میری والدہ محترمہ کا 70 سال کی عْمر میں انتقال ہْوا۔ دوسرے دِن برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید جناب مجید نظامی کے ساتھ میرے گھر آئے۔ 9 دسمبر کو ’’نوائے وقت ‘‘ میں میرا کالم شائع ہْوا ، مَیں جنابِ مجید نظامی سے ملنے گیا تو اْنہوں نے کہا کہ ’’ اثر چوہان جی ! مَیں تْہاڈا کالم پڑھیا تے مَینوں اپنی ماں جی دِی بوہت یادآئی!‘‘۔ مَیں نے کہا ’’جنابِ والا ! اپنے دیس پاکستان دِیاں سارِیاں دیسی مانواں اِکو جہیاںہوندیاں نَئیں!‘‘ معزز قارئین! 5 شوال(28 مئی)کی شام لاہور میں(میرے مرحوم دوست) تحریک پاکستان کے نامور کارکن، مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری کی اہلیہ اور(P.E.M.R.A) کے چیئرمین پروفیسر محمد سلیم بیگ کی والدہ محترمہ اصغری بیگم صاحبہ کا انتقال ہْوا تو مجھے بھی اپنی والدہ یاد آ گئیں حالانکہ میرا تعلق اْس طبقے سے نہیں جو سال میں ایک ایک بار Day "Father`s اور Day "Mother`s منانا ہے؟اپنے 9 دسمبر 1991ء کے کالم میں مَیں نے لکھا تھا کہ ’’ ماں کا رْتبہ بہت بلند ہے لیکن ہمارے یہاں دْنیوی زندگی میں ’’مادرِی نظام ‘‘ نہیں چلتا۔ ہر بیٹا (مرنے کے بعد بھی ) اپنے والد صاحب کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے اور بیٹی شادی ہونے تک لیکن جب کوئی ماں عالم فانی سے عالم جاودانی پہنچ جاتی ہے تو اْس کا ہر بیٹا اور بیٹی (حضرت مریم علیہ السلام کے نام کی طرح) اپنی ماں کے نام سے پہچانا جائے گا/ گی‘‘۔مجھے یقین ہے کہ ’’مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری کی اہلیہ مرحومہ،پروفیسر محمد سلیم بیگ اور اپنے چاروں "Businessmen"بیٹوں مرزا ظفر بیگ ، مرزا مظہر بیگ ، مرزا حامد بیگ اور مرزا خالد بیگ اور بیٹی فرح کوکب صاحبہ کی شناخت اور علامت بن کر عالم جاودانی میں پہنچ گئیں ‘‘۔ مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری کی شادی 1950ء میں لاہور کے ایک بزنس مین مرزا شہاب اْلدّین بیگ کی صاحبزادی اصغری بیگم سے ہْوئی۔ مرزا شہاب اْلدّین بیگ بہت مخیر اِنسان تھے۔ اصغری بیگم صاحبہ اْن کی پیروی کرتی رہیں اور شادی کے بعد اپنے شوہر مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری کی۔ مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری سے میری ملاقات 1964ء میںہْوئی پھر گہری دوستی ہوگئی۔ مرزا صاحب بہت مہمان نواز تھے۔ محترمہ اصغری بیگم جنہیں مَیں بھابی کے بجائے بہن کہتا تھا ، بھی اپنے شوہر نامدار کے رنگ میں رنگی گئیں۔ معزز قارئین! بیگ صاحب اکثر یہ حدیث ِر سول مقبول ﷺبیان کرتے تھے کہ’’ ایک اِنسان کا کھانا دو اِنسانوں کے لئے اور دو اِنسانوں کا کھانا تین اِنسانوں کے لئے کافی ہوتا ہے‘‘۔ وہ اپنے حلقہ احباب میں ’’ باب اْلعِلم‘‘ حضرت علی ؓ کا یہ قول عام کرتے تھے کہ’’ ہر اِنسان کے لئے روزانہ ایک وقت کا کھانا ، سادہ کپڑے اور سر چھپانے کے لئے ایک چھوٹا سا گھروندا کافی ہوتا ہے ‘‘۔ مرزا صاحب کا انتقال 6 مئی 2002ء کو ہْوا۔ اْس وقت تک اور بعد ازاں اپنے پانچوں بیٹوں کے تعاون سے بہن اصغری بیگم تاحیات غریب خاندانوں کی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور اْن کی شادیوں کا بندوبست کر کے ثوابِ دارین حاصل کرتی رہی ہیں۔ مرزا شجاع اْلدّین بیگ کو کتابیں پڑھنے اور دوستوں کو کتابیں تحفہ میں دینے کا شوق تھا۔ 1996ء میں مرزا سلیم بیگ سے میرا نئے سرے سے تعارف ہْوا اور پھر ہماری دوستی ہوگئی۔ مَیں نے اْسے بھی مختلف علوم کی کتابوں کا بہت بڑا ’’پڑھاکو ‘‘ پایا۔ مرزا سلیم بیگ کو بھی اپنے والد صاحب کی طرح دوستوں کو کتابیں تحفہ میں دینے کی عادت ہے۔ 20 جون 1998ء کو مرزا محمد سلیم بیگ کی شادی ہْوئی ، مَیں لندن میں تھا۔ واپس آیا تو اْس نے اپنی دْلہن طاہرہ سے میری ملاقات کرائی اور کہا کہ "Sir" یہ ہے آپ کی بہواور یہ بھی آپ کی طرح راجپوت ہے؟‘‘۔ مَیں نے دْلہن سے کہا کہ ’’بیٹی! اِس کا مطلب یہ ہْوا کہ ’’ میری اور تمہاری شادی ’’ وَٹے سٹّے ‘‘ کی شادی ہے؟‘‘۔ طاہرہ نے کہا کہ ’’ وہ کیسے؟۔ مَیں نے کہا اِس لئے کہ ’’ مَیں راجپوت ہْوں اور میرا سْسرال ’’برلاس مْغل بیگ‘‘ ہے اور تم بھی راجپوت اور تمہارا سسرال بھی ’’برلاس مْغل بیگ؟‘‘۔ مرزا محمد سلیم بیگ اور بیگم طاہرہ سلیم بیگ نے میرا موقف تسلیم کرلِیا۔ معزز قارئین! جب مَیں کبھی مرزا محمد سلیم بیگ اور بیگم طاہرہ سلیم بیگ کے تینوں بیٹوں 21 سالہ موسیٰ سلیم بیگ ،18 سالہ سلیمان سلیم بیگ اور 16سالہ خضر سلیم بیگ سے ملتا ہْوں تو مجھے اْن میں اپنے دادا جی مرزا شجاع اْلدّین بیگ کا عکس نظر آتا ہے۔ بزرگوں نے کہا کہ ’’ پوتا / پوتے اپنے دادا کا دوسرا رْوپ ہوتے ہیں۔ 9 سالہ عنایہ سلیم بیگ ماشاء اللہ بہت ہی ذہین بچی ہے۔ اسلام آباد میں میری سب سے پیاری بیٹی عاصمہ معظم ریاض چودھری ،اْس کے 10 سالہ بیٹے علی امام کا بیگم طاہرہ سلیم بیگ اور اْن کے بچوں سے بہت میل جول ہے اور معظم ریاض چودھری کا محمد سلیم بیگ سے، اْن کا میل جول مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ایک ملاقات میں مجھے بہن اصغری بیگم نے کہا کہ ’’ بھائی اثر چوہان! پنجتن پاک کی شفقت سے اللہ تعالیٰ نے مجھے پانچ بیٹے عطا فرمائے ہیں تو، مَیں نے کہا کہ ’’ بہن جی ! آپ بہت ہی خوش قسمت ہیں ‘‘۔ معزز قارئین! آج مَیں اپنے دوست مرزا شجاع اْلدّین بیگ امرتسری کی اہلیہ محترمہ بہن اصغری بیگم کی خدمت میں علاّمہ اقبال کا یہ شعر پیش کر رہا ہْوں … ’’موت ہے ہنگامہ آرائ، قْلزم خاموش میں! ڈْوب جاتے ہیں سفینے ، موج کی آغوش میں!‘‘ (بشکریہ رونامہ نوائے وقت )