’ہیلو مَیں مئی ہوں!‘ ’لگتا ہے یہاں نئی ہو؟‘ ’نئی نہیں بابا مئی ہوں… مئی!!‘ ’مئی ہو… کئی ہو… مکئی ہو… نکئی ہو… دبئی ہو… سرمئی ہو، میرے لیے سب برابر ہیں!‘ ’یہ سب برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟‘ ’جس طرح ہمارے ہاں جمہوریت، آمریت، شامریت، مارشل لائ، نگران، سب برابر ہوتے ہیں!‘ ’یہ ایسے کہ ہم نے پچھہتر سال میں ان سب کو باری باری بھگتا ہے، ہر دور میں غریب آدمی کی حالت لالہ بسمل کے اس شعر کی سی رہی ہے: بھوک سے لاچار ہے ، افلاس سے مجبور ہے کچھ نہ پوچھو یہ ہمارے دَور کا مزدور ہے‘ ’تمہارے جیسی کئی آئیں، کئی گئیں!‘ ’کئی نہیں بابا مئی… مئی!!‘ ’اچھا زیادہ سر نہ کھاؤ، سچ سچ بتاؤ کہی ہاں کیوں آئی ہو اور تمھارا حدود اربعہ کیا ہے؟‘ ’مَیں مزدوروں کے دن سے شروع ہوتی ہوں اور مجبوروں کے دن پہ ختم!‘ ’مزدوروں کا دن تو ٹھیک ہے لیکن اکتیس مئی مجبوروں کا دن کیسے؟‘ اس دن تمام سرکاری ملازم ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کے میرے بجٹ بردار بھائی جون کا انتظار کرتے ہیں، ساتھ حکمرانوں کو مخاطب کر کے گا رہے ہوتے ہیں: ناحق ہم مجبوروں پہ یہ تہمت ہے ’سرکاری‘ کی جو چاہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا ’یہ بھلا کیا تعارف ہوا؟‘ ’چلو اور سن لو کہ مَیں معتدل مزاج مسٹر اپریل کی بہن اور ہمسائی نیز مسٹر سال کی پانچویں اولاد ہوں!‘ ’کل کتنے بھائی بہن ہو؟‘ ’خیر سے آٹھ بھائی: مارچ، اپریل، جون، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر، دسمبر، اور ماشااللہ ہم چار بہنیں ہیں: جنوری، فروری، جولائی اور مَیں بقلم خود!‘ ’کیا باقی بہنیں بھی تمھاری طرح گرم مزاج ہیں؟‘ ’نہیں ایسا بالکل نہیں! ہماری سب سے بڑی آپا جنوری اور ان سے چھوٹی فروری تو اتنے ٹھنڈے مزاج کی ہیں کہ محلّے کے لڑکے انھیں آئس کریم، آئس کریم کہہ کے چھیڑتے ہیں۔ موڈ اور مزاج کی دونوں اتنی نرم ، بھولی بھالی اور شیریں مزاج کہ تمام رشتے دار انھیں برف کہتے اور برفی سمجھتے ہیں۔ فروری سے تو لوگ اتنی محبت کرتے ہیں کہ اس کے پیچھے ہر کسی کا دل بو کاٹا ہوا پھرتا ہے۔ لوگ اس کے استقبال اور جمال کی خاطر پورا مہینہ ننگے پاؤں چھتوں پہ چڑھے رہتے ہیں۔ وہ جوں ہی نظروں سے اوجھل ہوتی ہے، ہر جگہ مارچ شروع ہو جاتا ہے، کبھی کبھی تو لانگ مارچ بھی۔ ان دونوں بہنوں کی ساری عادتیں چھوٹے بھائی دسمبر سے ملتی جلتی ہیں۔‘ ’دوسری طرف وہ تمھاری نک چڑھی بہن جولائی بھی تو ہے!‘ ’ جی جی! وہ میری ایک بھائی کے بعد پیدا ہونے والی چھوٹی بہن ہے،بس مزاج کی ذرا گرم ہے۔ ‘ ’ذرا گرم؟ مَیں نے تو سنا ہے کہ اس کو ملنے سے معتدل مزاج شرفا کی جان جاتی ہے بلکہ کئی مرتبہ دیکھا بھی ہے کہ اُس کا سامنا کرتے ہوئے بڑے بڑے پھنے خاؤں کے پسینے نکل آتے ہیں۔ غصہ تو ہمیشہ اس کی ناک پہ دھرا رہتا ہے۔ اس کے خوف سے میدانی علاقوں والے اکثر لوگ شمالی پربتوں کا رُخ کرتے ہیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ اس کی شدت اور حدت کی تاب لانا کسی زمینی قوت کے بس میں نہیں، اُس کا مچ مارنے کے لیے آسمان سے باراں اور بہاراں کو بار بار زحمت کرنا پڑتی ہے، اس کے باوجود اس کے مزاج کا حبس نگوڑا کسی کل چَین نہیں لینے دیتا۔ ‘ ’دیکھو مسٹر مَیں اپنی چھوٹی بہن کے بارے میں زیادہ بکواس سننے کی عادی نہیں ہوں۔ مَیں نے تو ہمیشہ اس کی آمد پر لوگوں کو ’ساون آئے، ساون جائے‘… ’رِم جھم کے گیت ساون گائے‘ … ’ساون میں پڑے جھولے‘ اور ’رِم جھم گِرے ساون‘، جیسی مستیاں کرتے ہی سنا ہے۔ وہ تو خود تبدیلیِ آب و ہوا کی اتنی شوقین ہے کہ مَیں اور جون بھیا جب بھی اس سے ملنے یا لوگوں کا ردِ عمل بتانے گئے ہیں، وہ بھائی اگست کے ساتھ سیر پہ نکلی ہوتی ہے۔‘ ’گویا دو بہنیںخنک مزاج ہیں اور دو تنک مزاج ہیں ؟‘ ’بس یونہی سمجھ لیں!‘ ’آپ کا فیورٹ بھائی کون سا ہے؟‘ ’میرے سارے بھائی ہی مجھے بہت پسند ہیں لیکن مارچ بھیا مجھے سب سے زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ ایک مجھے ہی کیا، دنیا جہان کی حسینائیں ان پہ مرتی ہیں، مِس بہار اور پھول بانو تو گویا اُن پہ عاشق ہیں۔ ‘ ’اور وہ لُو بھی تو تمھاری ہی کچھ لگتی ہے؟‘ ’وہ مجھے زہر لگتی ہے، بس یوں سمجھ لیں میری دُوووووووور کی رشتے دار ہے، اس کا اور میرا بس اتنا تعلق ہے کہ وہ میری پرسینلٹی سے بہت جلتی ہے۔ میرے خاندان والے تو اسے بالکل لفٹ نہیں کراتے، اسی لیے جنگلوں ویرانوں میں لُور لُور پھرتی ہے!!!‘ ’یہ مئی اور مئے میں قدرِ مشترک کیا ہے؟‘ ’گرمی!‘ ’اور تفاوت؟‘ ’سب سے بڑا تفاوت یا تو یہی ہے کہ مئی یعنی مَیں صرف گرمی کے لیے مشہور ہوں اور مئے کے تعارف میں گرمی کے ساتھ بے شرمی بھی آ جاتی ہے۔‘ دوسری طرف یہ تمھاری بھی تو بے شرمی ہے کہ جو بھی تمھارا سامنا کرتا ہے پسینے میں شرابور ہوتا ہے، اسماعیل میرٹھی تو تمھارے بارے میں کب کے فرما گئے ہیں: لو آ گیا مئی کا مہینا بہا ایڑی سے چوٹی تک پسینا ان شاعروں نگوڑوں کی کیا پوچھتے ہو؟ ایک فلمی شاعر نے تو یہ بھی کہہ رکھا ہے: کوٹھے اُتّے سُتّی ساں ، پوہ دا مہینا سی اَکھ جدوں کھُلّی میرے مَتھے تے پسینا سی اور تمھارے شاعر تو یہاں تک اَگ پھَکی تھی کہ: سردی گرمی اِک برابر سختی نرمی اِک برابر چاروں پاسے ایہو دِسیا شرم بشرمی اِک برابر ٭٭٭٭٭