کوئی ہے جو اس آزاد میڈیا کے حضور ہاتھ باندھ کر عرض کرے کہ عالی جاہ ، بھائی جان ، قدر دان ، ایسے نہیں چلے گا؟ خیال خاطر احباب کے سارے تقاضوں کے باوجود مجھے کہنے دیجیے کہ اس ملک نے اگر آگے بڑھنا ہے تو اس طرز صحافت کو بدلنا ہو گا۔ یہ کوئی صحافت نہیں کہ سر شام ٹی وی سکرینوں پر ہیجان ، نفرت اور خوفناک سطحیت میں لپٹی محفلیں آباد ہو جاتی ہیں، جن کا موضوع صرف اور صرف سیاست ہوتا ہے۔ متن کے اعتبار سے یہ گفتگو انتہائی غیر معیاری ہوتی ہے۔صحافت کو ہیجان اور سیاست لاحق ہو چکی ہیں۔ کیا اخبارات اور کیا چینلز ، کیا کالمز اور کیا ٹاک شوز ، سیاست کے علاوہ کوئی موضوع باقی نہیں بچا۔ ٓاینکرز اور سینئر تجزیہ کاروں کی اکثریت کا یہ عالم ہے کہ ان کی دنیا کے کسی بھی موضوع پر گرفت نہیں ہوتی لیکن وہ دنیا کے ہر معاملے میں رہنمائی فرمانے پر تلے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایکسپرٹ اوپینین کا کوئی تصور نہیں رہا۔ اکثر کی واحد خوبی ان کا شناسا چہرہ ہے کہ سکرین پر آتے ہیں اور معروف بہت ہیں۔ ان کی جملہ مہارت ، ’ اس نے یہ کہا اور فلاں نے وہ کہا ‘ تک محدود ہوتی ہے۔ایسے نام جب کسی ملکی یا غیر ملکی ادارے کے لیے کالم لکھتے ہیں یا لکھتی ہیں تو ان کی تحریر فکری افلاس کا نوحہ ہوتی ہے۔ اسلوب اور متن دونوں تکلیف دہ حد تک غیر معیاری۔ شام ہوتے ہی تجزیہ کاروں کے لشکر اتر آتے ہیں۔ گفتگو اور متن دونوں کسی نوحے سے کم نہیں ہوتے۔ سماج نے رائے سازی کا منصب اوسط سے کم تر درجے کے لوگوں کے حوالے کر رکھا ہے۔ جو اپنے شعبوں کے ماہرین ہیں وہ اجنبی ہو چکے ہیں اور سینئر تجزیہ کاروں کے گولوں کے غول ہیں، جو کسی بھی معاملے پر ماہرانہ دسترس نہیں رکھتے مگر ہر معاملے پر ماہرانہ گفتگو فرمانے کے لیے ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔ اس مشق نے معاشرے کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ مکالمے کا ذوق جاتا رہا ، شائستگی اجنبی ہو گئی ، گفتگو کا معیار گر گیا۔ مقدر کا سکندر اب وہی ہے جو اپنی اور دوسروں کی عزت کے بارے میں یکساں طور پر بے نیاز ہو۔ اس طوفان بد تمیزی کا نام یاروں نے’ ریٹنگ ‘ رکھا ہوا ہے۔ ایک زندہ معاشرہ اس فکری اور تہذیبی بد ذوقی کو کب تک برداشت کرے گا؟ معاشرہ صرف سیاست کا نام نہیں ہے ۔ سماج کے مختلف موضوعات ہوتے ہیں، جن پر بات ہونی چاہیے۔ ادب ، تعلیم ، سماجیات۔۔۔ایک معاشرے کے سینکڑوں موضوعات ہوتے ہیں۔اہل صحافت کے فکری بحران نے سارے موضوعات نظر انداز کر دیے ہیں اور ان کے خیال میں معاشرے میں سیاست کے علاوہ کچھ اس قابل نہیں کہ اس پر بات کی جائے۔ وہی گھسے پٹے موضوعات ، وہ دو تین درجن مخصوص چہرے ، وہی متعصب آراء ، یہ روش نہ بدلی گئی تو وہ وقت قریب ہے کہ معاشرہ اس سارے بندوبست کو اگل دے گا ۔ معاشرہ رواں پانی کی طرح ہوتا ہے ، اس میں ارتقاء لازم ہے۔ اہل صحافت اس ارتقاء کا ساتھ نہ دے سکے تو پیچھے رہ جائیں گے۔ ظلم یہ ہوا کہ کالم نگاروں اور اینکروں کو دانشور بھی قرار دیا جانے لگا۔ اس سے بڑا بہتان کوئی نہیں ۔ ہر دور کے صاحبان اقتدار منظور نظر کالم نگاروں اور اینکروں کو مدعو کرتے ہیں تا کہ وہ ان کی سیاسی عصبیت کا ابلاغ کریں اور اس محفل کے نام دانشوروں سے ملاقات کی تہمت دھری جاتی ہے۔ جن لوگوں نے اپنے اپنے شعبوں میں عمریں گزار دیں وہ اجنبی ہو چکے ہیں اور نیم خواندہ سیاسی تجزیہ کار ایٹمی اسلحے سے لے کر امور خارجہ تک اورنج ٹرین کی طرح دانشوری دوڑاتے پھرتے ہیں۔ معاشرہ تنوع کا نام ہے، صرف سیاست کا نہیں۔ اس وقت گرمیوں کا موسم ہے۔ یہ پاکستان میں سیاحت کے لیے مثالی وقت ہے۔ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ہمارا میڈیا سیاحت پر ، اس سے جڑے امکانات پر ، اس کے مسائل پر ، اس سے وابستہ اقدار کے فروغ پر کتنی گفتگو کر رہا ہے؟ دنیا سیاحت سے اربوں ڈالر کما رہی ، ہمارے ہاں پانچویں صف کے کسی چوتھے درجے کے سیاسی رہنما کی شیطان کی آنت جتنی طویل اور لا یعنی پریس کانفرنس اہتمام سے دکھائی جاتی ہے لیکن سیاحت جیسی معاشی صنعت پر سنجیدگی ا ور اہتمام سے کوئی بات کرنے کو تیار نہیں۔ زیاد ہ سے زیادہ یہ ہوا کہ موج میں آیا تو ایک آدھ پیکج چلا دیا ، جس کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر۔ یہی معاملہ تعلیم کا ہے۔ کی آپ کو یاد ہے کبھی کسی ٹاک شو میں اہل علم اور ماہرین تعلیم کے ساتھ کسی نے سنجیدہ گفتگو کرنے کی کوشش کی ہو کہ اس ملک میں جو بے مقصد تعلیم دی جا رہی ہے قومی زندگی میں اس کی افادیت کیا ہے؟ ہماری ضرورت کیا ہیں ا ور ہمیں کن شعبوں میں ترجیحی طور پر آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں کون سی ڈگریاں ختم کر دینی چاہییں اور آنے والے عشروں میں کس شعبے کی دنیا میں کہاں کہاں مانگ ہو گی اور ہمیں بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق کیا کرنا ہے؟ کم از کم مجھے یاد نہیں کبھی ایسی گفتگو کہیں سنی ہو۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس سے متصل امکانات کا جہاں آباد ہے ۔ لیکن ہمارے میڈیا کی جانے بلا کہ ’ رورل اکانومی‘ بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔ قریب 70 فیصد لوگ زراعت سے وابستہ ہیں، لیکن کیا آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ اس نے میڈیا پر رورل اکانومی کے حوالے سے کوئی سنجیدہ گفتگو سنی ہو۔ ہاں کبھی زرعی اجناس کا بحران پیدا ہو جائے تو ہیجان کی تلاش میں صرف اس خبر کو اچھالا جاتا ہے لیکن یہ خبر بھی کسی سنجیدہ بحث کو جنم نہیں دے پاتی۔ پاکستان کی کل جی ڈی پی کا 11 فی صد لائیو سٹاک پر مشتمل ہے۔ ملک میں ڈھائی کروڑ گائیں ، پونے تین کروڑ بھینسیں ، ڈھائی کروڑ بھیڑیں اور قریب چھ کروڑ بکریاں ہیں۔ پاکستان ہر سال تین کروڑ ٹن دودھ پیدا کرتا ہے۔ لیکن کیا آپ کو یاد ہے کبھی ہمارے میڈیا پر لائیو سٹاک کے حوالے سے کوئی با مقصد گفتگو ہوئی ہو ۔ کبھی کسی نے اس امکان کو موضوع بنایا ہو کہ حج کے موقع پر قربانی کے لیے کوشش کی جائے کہ سعودی عرب کچھ جانور ہم سے بھی خرید لیا کرے؟ ہمارے میڈیا پر لائیو سٹاک پر ہونے والی گفتگو کا خلاصہ بس اتنا سا ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر مویشی منڈیوں کے چند ہلکے پھلکے سے پیکج بنا لیے جاتے ہیں کہ فلاں بکرا کیٹ واک کر رہا ہے ، فلاں بھینسا اتنے سو کلو کا ہے ، فلاں بیل کی قیمت دو کروڑ ہے ۔ میڈیا کے عمومی سطحی مزاج نے اسے تفنن طبع کا عنوان بنا لیا ہے اور اس پر سنجیدہ گفتگو اس کی بساط اور ذوق سے ماورا ہے۔ یہ چند مثالیں میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں۔ آپ اپنے ارد گرد دیکھیں آپ کو انصاف سے صحت تک ہزاروں مسائل ملیں گے جن پر بات ہونی چاہیے۔مگر نہیں ہو رہی۔ یہ روش بدلنا ہو گی۔ ورنہ بدلتا وقت بہت کچھ بدل دے گا۔ ٭٭٭٭