مَیں نے کہیں لکھا تھا کہ مَیں کچھوا مزاج کا آدمی تھا، مجھے خرگوشوں کی نگری میں چھوڑ دیا گیا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ مَیں اکثر اپنا پورا وجود باہر نکالنے کی بجائے صرف گردن نکالتا ہوں۔ ماحول اور مزاجوں کو زبان کی بجائے آنکھوں اور کانوں سے چکھتا ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ کچھوے کی سب سے بڑی مجبوری یا مکاری یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی کے سامنے اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا تو کجا، ڈھنگ سے جھک بھی نہیں سکتا، کیونکہ جھکنے کے لیے زمین سے تھوڑا بہت اوپر اُٹھا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اوپر والوں کو یہ سہولت اور رعونت تو بہرحال حاصل ہوتی ہے کہ وہ جہاں چاہیں ماتھا رگڑیں اور جہاں ضرورت محسوس کریں ناک، کچھوے بے چارے کو دونوں طرح کی لذت اور توفیق سے محروم رکھا گیا ہے۔ ساری زندگی زمین کے ساتھ سِلے اور گھلے مِلے رہنا ہی اس کی سب سے بڑی عیاشی ہوتی ہے۔یہ بات تو کچھوا جاتی کے بھاگ میں لکھی ہوتی ہے کہ وہ بھاگ کے بھی زندگی کی ہماہمی میں بھاگ نہیں لے سکتا۔ جہاں تک ادب کا تعلق ہے، مجھے دل و جان سے تسلیم کہ مَیں نثر قبیلے کا فرد تھا لیکن احساسات کے بہاؤ اور رچاؤ نے مجھے کبھی شعر کی ناؤ سے پوری طرح نکلنے نہیں دیا۔ سچ بات یہ ہے کہ مَیں تمام عمر شاعری سے بھاگتا رہا لیکن یہ عفیفہ ہمیشہ سائے کی طرح میرا پیچھا کرتی رہی، بقول شاعر: اندھیری رات ہے سایہ تو ہو نہیں سکتا یہ کون ہے جو مِرے ساتھ ساتھ چلتا ہے مَیں نے کہیں لکھا تھا کہ نثر کی حیثیت میری بیوی کی ہے اور شاعری کا درجہ محبوبہ کا۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بیوی وقت مانگتی ہے، محبوبہ وقعت۔ بیوی باقاعدگی کی رسیا ہوتی ہے اور محبوبہ بے قاعدگی کی دنیا کی باشندی۔ بیوی کی فوڈ اہمیت رکھتی ہے اور محبوبہ کا موڈ۔ بیوی کو ٹائم درکار ہوتا ہے اور محبوبہ کو پرائم ٹائم۔ جہاں تک شاعری سے عمومی محبت کا معاملہ ہے، میرا خیال ہے کہ شعر کا شعور ہر ذی نفس کے خمیر میں گوندھا گیا ہے۔ دنیا بھر کے جملہ علوم مشاہدے اور تجربے کا دودھ پی کے جوان ہوتے ہیں لیکن شاعری ان سے آگے بڑھ کے دانائی اور وجدان کی انگلی تھامے ذوقِ تخیل کے ہم رکاب ہو جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی پرواز اور پہنچ زمین کی حدود سے ورا ہے۔ یہ کششِ ثقل سے زیادہ کششِ شکل سے متاثر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص شعر کی اہمیت و افادیت سے انکار کرتا ہے تو مجھے غالب یاد آ جاتا ہے: آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا میرے ساتھ شعر کا رشتہ عاشق اور محبوب کا سا ہے۔ شاعری کو مَیں نعمتِ خداوندی سے تعبیر کرتا ہوں۔ اچھا شعر میرے حواسِ ہشتہ کے برگ و گل پہ شبنم کی صورت ورُود کرتا ہے۔ دل اس کی لطافت و تاثیر سے چھلکنے لگتا ہے۔ جہاں تک میرے اس پہلے اور تازہ ترین شعری مجموعے ’مجال‘ کا تعلق ہے، مَیں جانتا ہوں کہ اس سے اُردو شاعری کی جناب میںکوئی ہلچل بپا نہیں ہوگی لیکن اتنا ہے کہ میرے باطن میں تین دہائیوں سے ہونے والی کھُد بُد کو کچھ نہ کچھ قرار ضرور آ جائیگا۔یہ میری زندگی کا سفر ہے،زندگی ہی طرح دشوار، ناہموار، بے قرار، زارو زار۔کہیں اوبڑ کھابڑ، کہیں مست ملہار۔ کہیں حالاتِ حاضرہ کا ستایا ہوا، کہیں مستی و سرشاری میں نہایا ہوا۔ کہیں سنجیدہ، کہیں غیر ذمہ دارا، کہیں کھنڈرا، کہیں کھلنڈرا… مَیں جانتا ہوں اس میں بہت سارا کچپناہے، کسی حد تک بچپنا بھی ہے، اگر اس میں تھوڑا بہت پچپنا بھی نظر آ جائے تو یہی میری کامیابی ہے۔ بعض دوستوں کا مشورہ تھا اس کا انتخاب کر لیا جائے، ابتدائی اور انتہائی تحریروں پہ غور کر لیا جائے، بہت سے لوگوں نے کہا کہ نظم کو غزل سے، سنجیدہ کو مزاحیہ سے، پرانی کو نئی سے الگ کر لیا جائے لیکن اس ادھوری اور مصنوعی تصویر پہ دل مانا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے اسی طرح کی زندگی ملی تھی، جس میں محبت، غصہ، شوروشغب، مسائل، وسائل، شرارتیں، بجھارتیں، ذمہ داری، سنجیدگی، سیاپے، سراپے، قہقہے، چہچہے، ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑے تھے۔ اصل بات یہ کہ یہی تو میرے بدلتے رنگ ہیں، ان کو یک رنگی میں کیسے تبدیل کروں؟ یہی تو میرے ماضی کی کھڑکیاں ہیں، انھیں بند کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہی تو میرا ارتقا ہے ، اس سے بھاگ کے کہاں جاؤں۔ آخری بات یہ کہ مَیں نے یہ معاملہ رنگا رنگ نقادوں یا بدلتے زمانوں پر نہیں چھوڑا کہ وہ اس شاعری کے اپنی اپنی مرضی یا حالات ورزی کے مطابق معانی طے کرتے پھریں بلکہ مَیں نے سب کی سہولت کی خاطر اس میں اپنے مطلب کے معانی خود ہی ڈال دیے ہیں۔ اس کتاب کی نوک پلک سنوارنے میں برادر نعیم گیلانی کی توجہ قابلِ قدر ہے۔ علامہ عبدالستار عاصم نے قلم فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے تیس دسمبر کو میری سالگرہ پر پیارے دوستوں کی موجودگی میں خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شایع کر کے تحفے کے طور پر پیش کی تو جی خوش ہوا۔ متعدد احباب اس کی پذیرائی کے متمنی تھے۔ اس مرحلے پر ڈاکٹر عائشہ عظیم کی کاوش سے بہ عجلت قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کے خوبصورت ہال میں تقریب کا اہتمام کر دیا۔ جاپان سے تشریف لائے بہت پیارے ڈاکٹر مرغوب حسین طاہر، ادارہ تالیف و ترجمہ کے ناظم ڈاکٹر زاہد منیر عامر، ڈاکٹر نجیب جمال، پروفیسر اکرم سعید، ڈاکٹر غفور شاہ قاسم، ڈاکٹر حمیرا ارشاد، ڈاکٹر عمارہ طارق، ارشد نعیم، پروفیسر علی آصف، ذونیرا بخاری، مہر علی مہر کی وقیع تحریروں اور عمدہ گفتگو نے تقریب کو صحیح معنوں والے چار چاند لگا دیے۔ اسی طرح ڈاکٹر علی محمد خاں، شاہد ظہیر سید، عظمیٰ مسعود، زریں حبیب، ڈاکٹر خرم عباس وِرک، ڈاکٹر عمارہ رشید اور میرے ایم فل اُردو کے عزیز تر طلبہ و طالبات کی بھرپور شرکت نے تقریب کی گہما گہمی میں اضافہ کیا۔ ڈاکٹر عائشہ عظیم کی نقابت اور جناب قاسم علی شاہ کی اچانک آمد نے بھی تقریب کو مزید پُر وقار بنایا۔ سب سے آخر میں کتابِ مذکور سے چند اشعار بطور نمونہ: مَیںتیرے وصل کے سب راز پانا چاہتا ہوں نظر بھی آ مجھے اور کان سے سنائی دے (حمد) میرے ہونٹ سعادت لکھنے لگتے ہیں جب بیٹی کا ماتھا چومنے لگتا ہوں (نعت) یہ تبسم، یہ تکلم ، یہ نفاست ، یہ ادا جی میں آتا ہے تِرا نام مَیں اُردو رکھ دوں یہ میرا دل تو مِرے پاؤں پڑ گیا کل شام یہ مجھ سے بڑھ کے تِرے ہاں رسائی چاہتا ہوں شب پہ فتح پانی ہے، آرزو جگانی ہے میری اور سورج کی ایک ہی کہانی ہے جب بھی ملنے آؤ گے دو اُمور لازم ہیں داستان سُننی ہے، داستاں سنانی ہے اس نے چہرہ چاند کے ہاتھوں بھیجا ہے کس کس کو تصویر بنانا آتی ہے؟ جی کرتا ہے آنکھیں پیچھے لگ جائیں ماضی مجھ کو اتنا اچھا لگتا ہے جاؤ یارو ڈھونڈ کے لاؤ پھر کوئی چیز جوانی جیسی مَیں نے کاسہ ہی توڑ ڈالا ہے تم میری آخری ضرورت ہو اوجِ آدمیت کی ایک ہی تو صورت ہے ظرف کو ظرافت کی آج بھی ضرورت ہے