توڑ ڈالے ہیں جو دریا نے کنارے سارے کون دیکھے گا تہہ آب نظارے سارے نظر انداز کیا میں نے بھی اس دنیا کو اور دنیا نے بھی پھر قرض اتارے سارے بس یہی زندگی کی حقیقتیں ہیں۔ اچھا گمان بھی خوش آئند ہوتا ہے۔ زندگی انہی معاملات روز و شب سے تجسیم پاتی ہے اور آپ کے اردگرد سانس لیتے واقعات آپ کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اس محبت نے تمہیں کیسے ثمر بار کیا۔ میں کہ خود اپنا نہیں اور تمہارے سارے۔ حاصل عمر وہی طفل ہے اک گریہ کناں۔ ہاتھ سے چھوٹ گئے جس کے غبارے سارے۔ اور پھر سخت مشکل تھی مگر نام خدا کے آگے رکھ دیئے ایک طرف میں نے سہارے سارے۔ اس تمہید کے بعد مجھے ایک باوقار تقریب اور مشاعرے کا تذکرہ کرنا ہے کہ ادب اور شاعری کا بیان آپ کی صبح کو گل رنگ اور خوش آہنگ بنا دے گا۔ زمستاں کی پہلی بارش بھی ہو چکی۔ نومبر ختم ہورہا ہے اور پھر عرش صدیقی یاد آئیں گے کہ اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے۔ ابھی تو وہ یخ بستگی نہیں ہے مگر ایک احساس ضرور ہے تو سردیوں کے اس موسم کو خوش آمدید کہتے ہوئے پلاک کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغریٰ صدف نے ایک مشاعرہ کا اہتمام کیا کہ ان کی دوست اور نامور شاعرہ محترمہ ناصرہ زبیری کراچی سے تشریف لائی تھیں۔ ان سے اکثر کانفرنسوں اور مشاعروں میں ملاقات رہتی ہے۔ ایک مزے کی بات یہ ہے کہ وہ ایک عمر گزارنے کے بعد بھی لاہورن ہیں۔ وہی بوباس اور مٹی کی مٹھاس ان کے اندر جیتی ہے۔ ہمارے دلوں کی دھڑکن پیار امجد اسلام امجد اس محفل کی صدارت فرما رہے تھے۔ ناصرہ زبیری کے شوہر شہاب زبیری بھی وہاں موجود تھے اور وہ براڈ کاسٹنگ میں ایک بڑا نام ہے۔ ناصرہ لاہور چھوڑ کر اسلام آباد رہیں تو انہوں نے ایک شعر کہا: ہم نئے شہر چلے عمر کے اک دور کے بعد شہر وہ خوب لگا پر میرے لاہور کے بعد اچھا لگا کہ ایک عرصہ کے بعد ایک اچھی تقریب برپا ہوئی کہ جس میں فیملیز بھی آئی ہوئی تھیں۔ اس نوعیت کے پروگرام کراچی میں ہوا کرتے ہیں مگر یہ تو ڈاکٹر صغریٰ صدف کا کمال ہے کہ ایسی رونق لگائی۔ یہ ان کا وصف ہے کہ اردو اور پنجابی ادب کی ترویج کے لیے جو ان سے بنا پڑتا ہے وہ خلوص کے ساتھ کرتی جاتی ہیں۔ یہ بالکل سچ ہے کہ انہوں نے پلاک کو اپنے محدود وسائل کے باوجود ایسا کامیاب ادارہ بنایا کہ مثال نہیں۔ ان دنوں ان کی ملاقات محترم پرویزالٰہی سے ہوئی اور اپنے مطالبات ان کے سامنے رکھے۔ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ یہ شاندار ادارہ پرویزالٰہی صاحب ہی کا برین چائلڈ ہے۔ اس کے افتتاح میں کبھی ہم بھی شریک تھے۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اس مشاعرہ میں مہمان خصوصی خالد شریف تھے۔ ان کے ساتھ مہمان اعزاز میں نذیر قیصر تھے۔ ہمیں بھی سٹیج پر جگہ دے دی گئی۔ گویا دیکھتے ہی دیکھتے ہم بھی سینئر ہو ہی گئے۔ بہت پیارے پیارے دوست شعراء شریک ہوئے۔ قمر رضا شہزاد خانیوال سے تشریف لائے ہوئے تھے۔ کیا ہی اچھے وہ شاعر ہیں۔ ڈاکٹر جواز جعفری اور ناصر بشیر جو اب تک نوجوانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ منصور آفاق کچھ دیر سے آئے۔ ایک بات دلچسپ تھی کہ چونکہ ناصرہ زبیری کے اعزاز میں محفل سجی تھی تو قدرتی طور پر پروگرام پر خواتین کا غلبہ رہا۔ ایک تو صوفیہ بیدار کی میزبانی اور یہ سچ ہے کہ اچھا میزبان پروگرام کی کامیابی میں نصف حصہ دار ہوتا ہے۔ صوفیہ تو شاعرہ‘ کالم نگار اور افسر بھی ہے۔ سب سے بڑھ کر تخلیقی جملہ کہنے والی کہ ادبی خانوادہ سے ہے۔ پھر رخشندہ نوید جیسی طرحدار شاعرہ۔ تسنیم حسن‘ فرحت زاہد اور کچھ اور۔ کچھ اچھے مہمان گلدستہ بدست۔ پلاک کی پوری ٹیم اور میڈیا‘ ایک حسن اہتمام و انصرام۔ ڈاکٹر جواز جعفری کو ذرا جلدی تھی سو کلام سنا کر نکل گئے۔ ایک شعر ان کا ذہن میں رہے۔: جھوٹ بولوں تو چپک جائے زباں تالو سے جھوٹ لکھوں تو میرا ہاتھ ہنر کو ترسے میں چاہوں گا کہ اپنے معزز شعراء کا نمونہ کلام لکھوں مگر پہلے میں امجد اسلام مجد کی تازہ ترین غزل سے دو تین اشعار نذر کروں گا: کیسی دیئے ہی جاتی ہے منزل ہمیں فریب یہ راستہ خراب اگر ہے تو کس طرح کیوں دے رہا ہے کوئی کسی دوسرے کا قرض اس کا کوئی جواب اگر ہے تو کس طرح وہ ڈھیل دے تو کوئی بھی اس سے سبق نہ لے امجد یہی حساب اگر ہے تو کس طرح اور اس کے ساتھ ہی میں‘ ناصرہ زبیری کے ایک اور دو اشعار لکھ دوں کہ کہیں وہ کالم کی تنگ دامانی کا شکار نہ ہو جائیں۔ ناصرہ زبیری سے بھرپور کلام سنا گیا اور انہوں نے بہت داد سمیٹی: وعدہ بھی اس نے سوچ کے کرنے نہیں دیا پھر اس کے بعد اس نے مکرنے نہیں دیا تجھ کو پا کر بھی میں اکیلی تھی یہ اذیت بھی دل نے جھیلی تھی وہ کہ مشکل پسند تھا اور میں ایک آسان سی پہیلی تھی اب کچھ شعراء کے اشعار: بچھڑ کر تجھ سے جینا آ گیا ہے ہمیں بھی زہر پینا آ گیا ہے (خالد شریف) کوئی چہرہ کوئی مہتاب دکھائی دیتا نیند آتی تو کوئی خواب دکھائی دیتا (منصور آفاق) اگر یہ دھوپ ترا جسم چھونے آئے گی میں بادلوں کو تری چھت پہ کھینچ لائوں گا (ناصر بشیر) ہمارے دل کا تعلق نہیں زمانے سے سو اپنی خواہش دنیا اٹھا یہاں سے نکل (قمر رضا شہزاد) کہانیاں نہ ختم ہوں گی اختتامیوں کے ساتھ قبول کر مجھے میری تمام خامیوں کے ساتھ (رخشندہ نوید) کوئی جواز ہو ہم دم اب اس رفاقت کا تلاش کر مجھے میرے جمال سے آگے (فرحت زاہد) صوفیہ کو بہت مصیبت ہے دل اسے بد دعائیں دیتا (صوفیہ بیدار) آنکھوں میںکوئی اور تھا دل میں تھا کوئی اور دونوں سے دل کا حال چھپانا پڑا مجھے (ڈاکٹر صغریٰ صدف)