نوشکی کے قریب قومی شاہراہ پر بس سے اتار کر 9مسافروں کو اغواء کرکے قتل کردیا گیا، مسافر بس کوئٹہ سے تفتان جارہی تھی، مقتولین میں 8سرکاری اہلکار بتائے جاتے ہیں، جبکہ نوشکی ہی میں دوسرے واقعے میں ایک اور بس پر فائرنگ کے نتیجے میں مزید 2مسافر ہلاک جبکہ تین زخمی ہوگئے۔ واقعے کے بعد سیکورٹی فورسز نے ملزمان کی گرفتاری کیلئے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ مقامی پولیس نے اس کی تصدیق کی ہے کہ جن 8 مسافروں کو بس سے اتار کراغوا کیا گیا تھا۔ قریبی پہاڑی کے قریب واقعہ پل کے نیچے سے ان کی لاشیں ملی ہیںجنہیں وہاں سے ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ ان کی شناخت اور باقی جو دیگر معاملات ہیں وہ پولیس اور دیگر تفتیشی ادارے کررہے ہیں۔ بلوچستان میں بد امنی کی لہر نئی نہیں ہے پرانی ہے ۔یہاں پر مسافر بسوں میں شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو قتل کرنا پرانا کام ہے ،لیکن حکومت اب تک اس پر قابو پانے مکمل ناکام ہے ۔پنجاب سے جانے والے اساتذہ ،مزدور اور سرکاری افسران جب بھی بلوچستان جاتے ہیں تو بلوچستان کی خوشحالی میں کردار ادا کرنے ہی جاتے ہیں ۔لیکن شرپسند افراد اس میں رکاوٹ ڈالتے ہیں ۔ بلوچستان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں ۔اس میں بھارت کی سرپرستی میں دہشت گرد بھی متحرک ہوتے ہیں جن کا کام سی پیک کے کام کو روکنا ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں۔ ا س میں کوئی دو رائے نہیں کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد بھارت کی نجی ملیشیا کے ٹھکانوں کا اب وہاں سے صفایا ہو چکا ہے کیونکہ افغان طالبا ن نے بھی پاکستانی سرحد کے قریب سے دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دیئے ہیں،جبکہ بھارتی ایجنسی (را) کی سر پرستی میں چلنے والے تمام کیمپ بھی بند ہو چکے ہیں۔جس کے بعد اب بھارت دہشت گردوں کو بلوچستان کے راستے سے بد امنی پھیلانے کے لیے بھیجتا ہے۔اس وقت بھارت کی تمام تر توجہ بلوچستان میں عد م استحکام پیدا کرنے پر ہے۔اس لیے پاکستان کی ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی بلوچستان پر زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔بلوچستان میں ہونے والی حالیہ دہشت گردی کے تانے بانے بھی بھارت کے ساتھ ہی ملتے ہیں۔بظاہر تو یہ ایک مخصوص گروہ کی کارروائیاں محسوس ہوتی ہیں لیکن حقیقت میں اس وقت بلوچستا ن کے سبھی دہشت گرد گروپ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں ،سکیورٹی اداروں کو ان گروپوں کے درمیان پھوٹ ڈالنی چاہیے تاکہ یہ ماضی کی طرح ایک دوسرے کے خلاف ہی صف آرا ہوں۔بلوچستان میں دہشت گردی ،بد امنی اور امن و امان کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے ہیں۔ پاکستان کی قومی سلامتی و ترقی کا عمل براہ راست بلوچستان کی ترقی اور امن کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے۔پاکستان کی مجموعی سلامتی، ترقی اور خوشحالی کو سیاسی تنہائی میں دیکھنے کے بجائے ایک بڑے سیاسی اور انتظامی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ جو لوگ پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کو اپنا ایجنڈا سمجھتے ہیں وہ صوبہ بلوچستان یا خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں کو بنیاد بنا کرملک میں بدامنی پیدا کرنے کے عزائم بھی رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے معاملات پر ہمیں گہری نظر رکھنی ہے اور وہاں پر موجود غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی بنیاد پر ہی آگے بڑھنے کو اپنی حکمت عملی کا حصہ بنانا چاہیے۔ سی پیک کی بنا پر بھارت بلوچستان کے معاملات میں غیر معمولی دلچسپی رکھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ وہ بلوچستان کے حالات میں مزید بگاڑ پیدا کرکے پاکستان پر بڑا دبائو ڈال سکتا ہے۔اسی بنا پر بھارت کی تمام تر توجہ بلوچستان پر ہے۔غربت کی بنا پراسے وہاں سے آسان ہدف بھی مل جاتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل بلوچستان کے شہر تربت میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر ایک خاتون نے خودکش حملہ کیا تھا۔ جس میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور ایک خاتون کانسٹیبل سمیت دو اہلکار زخمی ہوئے۔تربت میں بم دھماکوں سمیت بدامنی کے دیگر واقعات کے علاوہ سیکورٹی فورسز پر حملے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں لیکن کسی خاتون کی جانب سے اس شہر میں خودکش حملے کا یہ پہلا واقعہ تھا۔اس سے قبل اس خاتون کے منگیتر نے بھی خود کش حملہ کیا تھا۔اسی طرح بلوچستان کے ضلع کیچ سے تعلق رکھنے والی دو بچوں کی ماں نے بھی کراچی یونیورسٹی میں خود کش حملہ کیا تھا۔ اگر دیکھا جائے تو کالعدم بی ایل اے کی صفوں میں کئی خواتین بھی شامل ہیں۔ بلوچستان میں قوم پرستی کی تحریکوں سے جس طرح مرد متاثر ہو رہے ہیں، اسی طرح خواتین بھی اس جانب مائل ہو رہی ہیں۔یہ رجحان انتہائی خطرناک ہے۔ حکومت پاکستان نے 18ویں ترمیم کے تحت ایک پر امن اور خوشحال بلوچستان کی ابتداء کی تھی مگر اس کے نتائج سامنے نہیں آئے ۔8فروری 2024ء کو بلوچستان میں بھی الیکشن ہوئے ہیں لیکن ابھی تک بلوچستان میں کابینہ تشکیل نہیں دی گئی ،عام انتخابات کو 63روز گزر گئے اورسرفراز بگٹی کو وزیر اعلیٰ بلوچستان بنے 41 روز گزر گئے، صوبائی کابینہ وجود میں نہیں آسکی، بس ون مین شوہے ۔اگر کابینہ نہیں بنانی تو الیکشن کروانے کا فائدہ کیا ہوا ۔وہاں کابینہ بنائی جائے ، نوجوان نسل کے گلے شکوے دور کیے جائیں۔دور دراز علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھانا ، سکولز اور ہسپتالوں کی تعمیر ، کھیلوں کے میدان ، نوجوانوں کی مختلف نوعیت کی سرگرمیوں کا فروغ مثبت اقدامات کی شروعات کی جائیں۔ایسے ہی بلوچستان کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکے گا ۔