ڈاکٹر طاہرہ اقبال کو بھی قدرت نے کیا ذہانت عطا کی ہے، جو مشاہدے اور مطالعے کی عینک لگا کے کرداروں اور مناظر کے بھیتر تک جھانک لیتی ہیں اور پھر زبان و بیان کے سلیقے سے قاری اور کردار کو مسخر کرتی چلی جاتی ہے۔ ناول لکھنے کا سیدھا سادھا مطلب تو ایک نیا جہان آباد کرنا ہوتا ہے اور اس معاملے میں تو یہ پراپرٹی ٹائیکون سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ ناول میں ایک دو کردار ہوں تو انھیں ساتھ لے کے چلنا آسان ہوتا ہے،پانچ سات کرداروں کی فیملی کے ساتھ بھی کسی طرح گزارا کیا جا سکتا ہے لیکن کرداروں کے جمعہ بازار کے ساتھ اس طرح نبھاہ کرتے چلے جانا مشکل ترین کام ہے۔ پھر ہڑپا جیسی بے آب و گیاہ بستی سے تروتازہ کہانی کشید کر لینا ان کی بڑی فنکارہ ہونے کی نشانی ہے۔ انور مسعود کو اس اُجڑی پُجڑی بستی سے چروکنی شکایت تھی کہ: اُجڑا سا وہ نگر کہ ہڑپا ہے جس کا نام اُس قریۂ شکستہ و شہرِ خراب سے عبرت کی اِک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے ڈاکٹر طاہرہ اقبال کے اس ناول میں کرداروں کے ساتھ ساتھ عبرت کے بھی انبار لگے ہیں۔ کہیں ہڑپا کے ڈھنڈار کھنڈرات کی شکل میں اور کہیں ملک فیملی کے لمحہ لمحہ خاک ہوتے طنطنے کی صورت۔ اس ناول کا مرکزی کردار حویلی کا چودھری ملک ولایت علی خاں ہے، جس کے تینوں بیٹے مختلف انداز میں موت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ پہلے نمبر پر جائیداد کی ہوس میں اندھے بھائی کی گولی کا نشانہ بن جانے والا کالج میں ہیرو، گھر میں زیرو افتخار ہے۔ پھر ہڑپا کی مورتیوں کو سجدے کے بعد شِرک کی آگ میں جھلستا افتخار کا قاتل امتیاز ہے۔ اسی طرح آخری عمر میں افتخار اور امتیاز کی قبروں سے پودے کی طرح اُگ آنے والا اور اکلوتی بہن صنوبر کو پہلی بار زندگی سے روشناس کرانے والا، بڑھاپے کی اولاد عطا اللہ ہے۔ اسی طرح امتیاز کو غلط سلط پٹیاں پڑھانے والا منشی مستا ہے۔ دنیا بھر سے ڈاہڈی چودھرانی ہے، جس کے ارد گرد ماگا مارتی، بَین کرتی کمنیانیاں ہیں، اسی حویلی میں بے بس و لاچار صنوبر ہے کہ جسے چودھرانی کی زندگی میں بات کرنا تو کجا، اپنی مرضی سے سننے اور دیکھنے، حتیٰ کہ بلوغت کے اظہار کی بھی اجازت نہیں، اس کی سماعتوں کو بھی تمام آوازوں کا پردہ ہے۔حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آخر پہ وہی پوری جائیداد کی مالک قرار پاتی ہے۔ پھر بے عزت ہو کر باعزت ہو جانے والی چنی بھی اس ناول کا ایک متحرک کردار ہے۔ اسی چنی کو مفت کی کھیر سمجھ کر چاٹ جانے والے بدمست ملنگ ہیں، جنھیں مولوی صاحب کے بقول شِرک تک کی معافی ہے۔ پھر اُسی چنی کو چاند بی بی بنا دینے والی این جی او والی چٹر پٹر انگریزی بولتی اور دوسروں کو لباس،تراش خراش اور پرسنیلٹی سے زیر کر لینے والی حقوقِ نسواں کی علم بردار باجیاں ہیں۔ اسی طرح عمر بھر کی پڑھی کتابوں کا تعویذ بنا کر گفتگو کے طلسمی دھاگے میں پرو کر، انتظار کی آنچ میں دہکتا منتر پھونک کر، محبت اور ریاضت کی پگڈنڈی پر پھونک پھونک کر قدم رکھ کر صنوبر کا دل جیت لینے والا،ماسٹر اللہ دتہ کا ڈی سی بن جانے والا بیٹا اسلم عرف اَچھو ہے۔ بڑے خاندان سے سمدھیانے کی خواہش میں جلتا اس کا والد ہے۔ پھر میانوالی سے آکر گارڈ کی نوکری کرتا اونچا لمبا، گورا چٹا، تیکھے نقوش والا، چنی کا کرش رشید خاں نیازی عرف آریا ہے، جس کی آنکھوں سے بقول چنی: شہتوت کی گولھوں سا رنگ ٹپکتا ہے، جس کی گردن شیش ناگ کے پھن سی اکڑی ہے اور جس کے قدم مُشکی گھوڑے کی ٹاپوں کی سی چنگاریاں اڑاتے ہیں۔ پھر سونے سے گھڑے جھومر اور چاندی کی کھنکتی پازیب جیسی جگ مگ پنڈلیوں والی چھج بھمبیریاں بیچتی سنیاری ہے، جس نے ایک زمانے کو بھمبیری بنا رکھا ہے اور جس کے گال کے گڑھے میں گرنے والا پانی تک نہیں مانگتا۔ پورے گاؤں کے مرچ مسالے، نمک، ہلدی، دھنیا پیستی، دالیں دَلتی اور ادھیارے کی گائیں بھینسیں پالتی بھاگاں محتاج ہے۔ اسی طرح کمزور عقیدہ دیہاتی عورتوں کو اولاد اور شِفا بخشتا، عاشقوں کو معشوق سے ملاتا زمانے بھر کا پاکھنڈی پیر جنڈی ہے۔ ملکوں کا خاندان اجڑنے کے بعد پٹواریوں کی مدد سے جائیداد میں گھس کر، ملک اکرم حسین بن جانے والا اور بالی کو نکاح کے بعد اقبال بیگم کے سنگھاسن پر بٹھانے والا اَکو ہے۔ اڈے میں ہاکری کرتے کرتے پجیرو کا مالک بن جانے والا ملک صابر حسین عرف صابوہے۔ باپ کے بعدملک خاندان کی اَٹی اَٹی، وَٹی وَٹی کی حفاظت پہ مامور نوجوان منشی ریحانے ہے۔ اسی طرح ہر باب میں جڑی بُوٹیوں کی طرح نمو پاتے بے شمار کردار ہیں، جن کے حلیے اور حوالے پہ ڈھیروں ڈھیر باتیں ہو سکتی ہیں لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ اس ناول کا سب سے متحرک اور مختلف کردار اقبال بیگم کا ہے، جسے حالات کے جبر اور حضرات کی ہوس نے بالی کنجری بننے پر مجبور کر دیا جو ڈاکٹر طاہرہ اقبال کا شاہکار ہے۔ آئیے فی الحال اسی کردار کی کچھ جھلکیاں دیکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ’’مَیں آپ ہی آپ تو اس بازار کی نہیں ہو گئی، بنانے والوں نے بنایا۔ مَیں تو عورت مرد کے سچ کو بھی نہ جانتی تھی، آٹھ دس سال کی نابالغ تھی کہ کچا گھڑا ٹوٹ گیا۔ پہلے گیدڑ، بجو، بِلے، کتے سرنگ کھود کر شکار پر جھپٹے، جب منھ سے ماس لگ گیا تو بُو ہر کہیں پھیل گئی، پھر بھگیاڑ، سؤر بھوکی پیاسی کو کھو مُچھ جاتے… بس جس روز محنت کی مزدوری مانگی، اسی دن مَیں اس بازار کی ہو گئی۔ جب ڈر اور راز کا پردہ اٹھا دیا تو پھر بے عزت ہونے کا کھڑکا ہی نہ رہا۔ خود بے عزتی سر پر اٹھا لی تو وہی عزت بن گئی، وہی عزت جو ایک انھیں ملتی ہے۔ جب مول چکانا پڑا تو قدر بھی بڑھ گئی۔ اب کوئی گالی نہ دیتا، کیا دیں گے گالی؟ لُچی، بدمعاش، وہ نام تو مَیں نے خود اختیار کر لیے… بالی کی قدر و منزلت دیکھ کر ہڑپا کے شوکیسوں میں سجی عریاں مورتیوں پہ رشک کرتی چنی کو لگا کہ بالی بھی سنگِ مرمر کی وہ دیوی ہے، جو عجائب گھر میں مورتیوں کی طرح الگ شان سے کھڑی ہے، جس کی پوجا ہوتی ہے۔ بالی جو روز گُت کھول کر ٹیڑھی مانگ نکال، خوشبوئی تیل لگا کنگھا کرتی، بالی کی سیاہ ناگن گُت کمر پر یوں پٹختی جیسے کسی پیٹھ پر کوڑا مارا ہو … اگر سارے مرد بالی کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے تو بالی کتنا نیکی کا کام کر رہی تھی۔ اگر بالی یہ کام نہ کرتی تو وہ ایک دوسرے کو کاٹ ڈالتے، بالی انھیں جانور سے انسان بننے کا موقع فراہم کرتی تھی۔ وہ جسم کی بجائے آنکھیں،کان،ناک اور دل کا اعتبار بھی حاصل کر سکتے تھے،بالی پوری عورت تھی۔یہ بالی ہی تھی کہ جس کے منھ سے ہر گالی،ہر دھمکی،ہر طعنہ سن کر یہ مرد مزید بشاش ہو جاتے۔ ملک اَکو نے پوری بالی پر قبضے کی غرض سے، اسے آدھ مربے کے عوض اقبال بیگم تو بنایا لیکن بعد ازاںاس کے ظالمانہ رویے نے کچی دُھول کے زرد غبارسے چھتنار بننے والی اس بالی کو دوبارہ اقبال بیگم کے ڈھینگر میں تبدیل کر دیا۔ یہ خوبصورت ناول بک کارنر جہلم کی اشاعت ہے۔