خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے کبھی ہم بھی اس نہج پر سوچتے ہیں مگر نتیجہ معلوم۔ مگر اس کام سے دست کش بھی تو نہیں ہو سکتے۔ سر تسلیم ہے خم کچھ نہ کہیں گے لیکن یہ قلم اور یہ قرطاس کہاں رکھیں گے پھر یہ بھی تو ہے کہ خود ہی روئیں گے ہمیں پڑھ کے زمانے والے۔ہم بھلا رنج و الم پاس کہاں رکھیں گے ۔کچھ نہ کچھ رائے زنی تو کرنا پڑتی ہے اور اگر ادب کے پیرائے میں ہو جائے تو سونے پر سہاگہ نہ سہی کچھ تو بہتر ہی ہو گا۔کیوں نہ ادب کی دنیا کا ایک نہایت دلچسپ واقعہ سنا کر بات شروع کی جائے۔ ہم جب پاک ٹی ہائوس میں بیٹھا کرتے تھے تو وہاں ہر قسم کی باتیں روا تھیں۔وہاں ہمارے ساتھ ریاض شاہد کے بھائی بھی بیٹھا کرتے تھے ماشاء اللہ سب ہی تن و توش والے اور قد آور۔تعداد تو یاد نہیں ایک روز ریاض شاہد کے ایک برادر نے انتظار حسین صاحب سے پوچھا کہ ان کی ریاض شاہد صاحب کے بارے میں کیا رائے ہے کہ وہ کیسے تخلیق کار ہیں۔انتظار حسین صاحب نے کہا بھائی جی جس کے چھ سات بھائی گھبرو ہوں وہ کوئی چھوٹا موٹا رائٹر ہو سکتا ہے!وہ ایک بڑے لکھاری ہیں میرا خیال بات تو آپ کی سمجھ میں آ گئی ہو گی کہ وہی بڑا جس کے ساتھ ہاکیوں والے ہوں بات آگے بڑھانے سے پہلے ایک اور منظر میرے سامنے آ گیا کہ ہمارے مشاعروں میں لوگ داد دینے والے ساتھ لے کر آتے ہیں ہمارے مشاعروں میں بھی کمال کے داد دیتے ہیں ایک صاحب کو تو میں جانتا ہوں کہ اچھے شاعر ہیں مگر داد سر کو زور زور سے ہلا کر دیتے ہیں اور اس چکر میں ان کے سر کے بال بھی جھڑ گئے ہیں۔ حالات تو اس ڈگر پر آ گئے ہیں کہ انہیں ٹچ کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے وولٹیج کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔تاہم سپریم کورٹ نے سٹیٹ بنک کو الیکشن فنڈز جاری کرنے کا حکم دے دیا ہے ظاہر ہے یہ ایک آئینی عمل ہے دوسری جانب ان کیمرہ سیشن میں چیف صاحب کا بیان ہے کہ آئین کے تحت اختیار منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہو گا۔انہوں نے کہا ہے کہ عوام کے نمائندے ہی منزل کا تعین کریں گے، عوام ہی اس نظام کی طاقت ہیں ایک اور بات توجہ طلب ہے کہ نئے اور پرانے پاکستان کی بات چھوڑ کر ہمارے پاکستان کی بات کرنی چاہیے کہاں عبداللہ روکھڑی یاد آئے: ہم تم ہونگے بادل ہو گا رقص میں سارا جنگل ہو گا بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ دل کو لگتی ہیں اور جب یہ بات شاعر کے دل کو لگے تو پھر اسے سخن کے پیرائے میں تو ڈھلنا چاہیے بعض باتیں تو اپنے پیچھے پوری تاریخ رکھتی ہیں ویسے بھی بقول ٹی ایس ایلیٹ ہر لمحہ اپنے ساتھ کئی لمحے لے کر آتا ہے جبکہ بات ہم کر رہے تھے کہ ہمارا پاکستان کیوں نہیں؟کبھی ایک اشتہار چلا کرتا تھا جس کے آخر میں ایک معصوم آواز آتی تھی۔’’میرا بھی تو ہے‘‘ نیا پرانا چھوڑیے صاحب وقت نے ہمیں پکارا ہے پاکستان ہمارا تھا اور پاکستان ہمارا ہے میں اپنے کالم میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنے پاس سے کچھ نہ لکھا جائے وہی لکھوں جو اخبار سے مصدقہ ہو اس کا فائدہ یہ کہ تعصب کا شائبہ نہیں ہوتا۔کوئی یہ بھی نہیں کہے گا کہ آپ طنز کچھ زیادہ ہی کرتے ہیں سراج الحق فرما رہے ہیں کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن اور عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کو تابع رکھنا چاہتی ہے۔اب اس پر کیا تبصرہ کریں انہوں نے درست کہا کہ سب سیاسی سٹیک ہولڈر بیٹھ کر ڈائیلاگ کریں وگرنہ وہی ہو گا جو ماضی میں ہوتا آیا ہے ڈر تو ہمیں بھی لگتا ہے کہ چھٹی حس پھڑ پھڑا رہی ہے۔باقی میں بات تابع داری کی یا تابع فرمان کی سب ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور نیچے لگانے کے آرزو مند ہیں اور اس کوشش میں عوام بے چارے مہنگائی اور بدحالی کے نیچے کے لگے ہوئے ہیں۔ امیر العظیم کا بیان درست ہے کہ کسی کو بھی عوام کا خیال نہیں۔ ویسے سچی بات یہ کہ عوام کو خود بھی اپنا خیال نہیں۔کون سا شعبہ ہے جس میں دیانتداری اور صاف گوئی ہے دکاندار سے ریڑھی والا تک سب چکر دینے میں ماہر۔ ایک بات ہے کہ الیکشن ہی حالات کا حل ہے اور یہ الیکشن یقینا ایک کے لئے زندگی اور دوسرے کے لئے موت نظر آ رہے ہیں۔ زندگی اور موت کا سوال محاورہ بھی ہے ۔ فی الحال تو الیکشن کو ٹالنے کے طریقے سوچے جا رہے ہیں حسن بلوچ کا ایک بیان چھپا ہے جو کہ بہت سے لوگوں کی رائے سے ہم آہنگ ہے کہ آئینی بحران کا واحد حل فل کورٹ کی تشکیل ہے۔صرف ایک ہی ادارہ ہے جسے یہ سمجھ ہے کہ اپنا وقار کیسے بحال رکھنا ہے ۔ اسی طرح عدلیہ کو چاہیے تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر نفرتیں ختم کرتے اور متفقہ طور پر آئین کے تحت انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرتے۔آئین پر عملدرآمد کرانے میں ہی عدلیہ کی نیک نامی ہوتی اور ہو گی۔ چلیے سیاست سے ہٹ کر بھی ذرا سی بات کر لیں کراچی سے معین قریشی صاحب نے لکھا ہے کہ کچے کے ڈاکو کچے میں رہتے ہیں اور پکے کے ڈاکو اسمبلی میں ہیں۔ ہم تو خیر اتنی جرات نہیں کر سکتے کہ ایسا لکھ سکیں بہرحال کچے کا علاقہ ضرور سندھ میں ہے اور ان کچے کے ڈاکوئوں نے سندھ حکومت کے ناک میں دم کر رکھا ہے لیکن پکے کے ڈاکوئوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے کچا ڈاکو یا کچے چور کی اصطلاح ہے۔ آپ یقین کیجیے کہ یہ واقعہ ہمارے دوست اور معروف شاعر جان کاشمیری کے ساتھ پیش آیا کہ انہوں نے ایک ڈاکو کو پکڑ کر پولیس سٹیشن جا کر پولیس کے حوالے کیا اور اسی رات دو چار گھنٹے کے بعد ساتھ والے محلے میں وہی ڈاکو یا چور پھر پکڑا گیا۔ اتفاق یہ کہ وہ بھی جان کاشمیری کو لے کر دوبارہ تھانے آئے اور شکایت کی کہ اسے تو پہلے بھی آپ کے حوالے کیا تھا پولیس والا غصے میں آ گیا اور کہنے لگا یہ حرامزادہ کچا چور ہے یعنی دوبارہ اسی علاقے میں چلا گیا جہاں سے پکڑا گیا تھا تو جناب پکے چور کبھی بھی پکڑے نہیں جاتے جتنی مرضی کرپشن کریں کک بیکس لیں اور کمیشن کھائیں۔ غیر ملکوں کے محل اور اثاثے گویا کہ ثبوت نہیں ہیں طاہرہ سرا کے ایک خوبصورت پنجابی شعر کے ساتھ اجازت: کد کپاہواں کھڑن گئیاں چرخے اگے بیٹھی آں