جوں جوں پاکستان 2024 کے انتخابات کے قریب پہنچ رہا تھا قیاس آرائیاں اسی رفتار سے پھیلا ئی جا رہی تھی کہ عام انتخابات وقت پر نہیں ہوسکیں گے ، اس کی بنیادی وجوہ میں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ضمنی انتخابات وقت مقررہ کے مطابق نہ کروانا شامل تھی، نگراں حکومتوں نے آئینی طریق کار کے برخلاف ضمنی انتخابات کو لٹکائے رکھا اور متعین مدت سے زائد اقتدار میں رہے، جس کی وجہ سے سیاسی جماعتوں اور عوم میں انتخابی عمل کی غیر جانبداری اور شفافیت پر تشویش بڑھتی چلی گئی ۔ 08فروری کی رات تک نگراں حکومتیں عوام کو مطمئن نہ کراسکیں کہ انتخابات وقت پر ہوں گے ، سپریم کورٹ کی جانب سے پتھر پر لکیر جیسے سخت موقف کے باوجود عام انتخابات میں بے یقینی اپنے عروج پر رہی ۔ اقتدارمنتقلی کی نگرانی کے لیے مقرر کردہ نگراں سیٹ اپ اور الیکشن کمشن بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنے، بہت سے لوگوں نے اسے ملکی تاریخ کا بدترین دور قرار دیا ۔نگراں حکومتیں، جو منصفانہ انتخابات کی سہولت فراہم کرنے والے غیر جانبدار اداروں کے طور پر کام کرنے کا تصور کرتی ہیں، اپنی ذمہ داری میں مبینہ کوتاہیوں کا باعث بنیں، اقتدار کے لیے کوشاں سیاسی جماعتوں کے جوڑ توڑ کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام کو بام ِ عروج تک پہنچا ۔ اس ناکامی نے انتخابی عمل کی ساکھ پر سایہ ڈالا، جس سے پاکستان کے جمہوری طریقہ کار کی افادیت پر متعلقہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان، جسے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی، موجودہ شکوک و شبہات کا ایک حصہ ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن انتخابی عمل کے تقدس کو برقرار رکھنے میں اہم ذمہ داری کا حامل ہے، لیکن نفاذ اور نگرانی کی کمی کی وجہ سے اس کی تاثیر متاثر ہوئی۔ نگران حکومتوں اور ای سی پی دونوں پر مشتمل نگران سیٹ اپ شفاف انتخابات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔ تاہم، قبل از انتخابات دھاندلی کو روکنے اور برابری کے میدان کو یقینی بنانے میں ان کی نااہلی نے انتخابی نظام پر عوام کے اعتماد کو مجروح کیا ۔ انتخابات کے پیش نظر سب سے زیادہ تشویشناک رجحانات میں سے ایک اپوزیشن کی آوازوں کو دھمکانے کے لیے سرکاری مشینری کا مبینہ غلط استعمال ہے۔ گرفتاریوں، دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے کی رپورٹس جن کا مقصد اختلاف رائے کو دبانا تھا، نے انتخابی منظر نامے کو شدید متاثر کیا ، جس سے جمہوری عمل کی ایک بھیانک تصویر سامنے آئی ہے۔ مزید برآں، رکاوٹوں کی مثالیں، جیسے کہ انتخابات کے دن موبائل سروس کا بند ہونا، انتخابی عمل کی سا لمیت کے حوالے سے خدشات کو مزید بڑھاتا چلا گیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابی نتائج وقت پر دینے میں ناکام رہا اور اس نے جتنے دعوے کئے تھے وہ مٹی کا ڈھیر ثابت ہوئے ، فارم 45سے فارم47تک سفر اتنا غیر شفاف رہا کہ ہارنے والا خود کو جیتا ہوا اور جیتنے والے کو شکست خوردہ قرار دیئے جانے لگا ۔ کراچی جیسے شہر کے مکمل نتائج بھی 48گھنٹے تک جاری نہیں کئے جاسکے۔ نگران حکومت نے اشیائے صرف، بجلی اور گیس کی قیمتوں کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھیانک اضافہ کیا ، نگراں وزرا ء کابینہ اجلاسوں میں ایک دوسرے پر کام سے روکے جانے کے الزامات لگاتے رہے ۔ بادی النظرنگراں حکومتوں نے ہر وہ کام کیا جو اس کے مینڈیٹ کا حصہ نہیں تھا ، غیر ملکی دوروں کی دوڑیں لگی رہیں ، عالمی فورم میں اس طرح نمائندہ بنے جیسے ان کے پاس پچاس برس کا مینڈیٹ ہو۔ پڑوسی ممالک سے تعلقات میں سرد مہری بڑھی۔ نگراں حکومت کے اقدامات سے نوبت یہاں تک پہنچی کہ انتخابات میں مخصوص جماعت کو کھڈے لائن لگانے کے لئے ہر وہ کوشش کی گئی ، جس سے وہ معصوم اور بے گناہ کے تاثر کے ساتھ ایک ایسا بیانیہ لے کر اُٹھے کہ پہلی مرتبہ ایوان اور دو بڑے صوبوں میں آزاد امیدوار ، کسی بھی تجربہ کارسیاسی جماعت کے مقابلے میں زیادہ تھے۔ مجموعی طور پر پاکستان کے سب سے مہنگے انتخابات کے نتائج نے سیاسی عدم استحکام کی فضا بنائی ۔ سنی اتحاد کونسل کانئے انتخابات کا مطالبہ بھی سامنے آسکتا ہے گر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو اراکین ایک بار پھر ایوانوں سے استعفیٰ دے سکتے ہیں۔ جس کے بعد اگر ضمنی الیکشن کروانے کی کوشش کی گئی تو عمران خان تمام حلقوں میں بار بار اپنے حمایت یافتہ امیدوار کھڑے کریں گے ۔ انٹرا پارٹی الیکشن کے بعد تحریک انصاف کو اپنا انتخابی نشان واپس مل جائے گا جس کے بعد ووٹرز اور سپورٹرز کی حمایت میں مزید اضافہ ہوگا اور اتحادی حکومت کے لئے اس بار بھی سونامی کو روکنا ناممکن ہو جائے گا۔ ان چیلنجوں روکنے کے لئے اتحادی حکومت کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ جامع انتخابی اصلاحات کی اشد ضرورت ہوگی۔ ان نظامی خامیوں کو دور کرنے کی ٹھوس کوششوں کے ذریعے ہی پاکستان اپنے جمہوری اداروں پر اعتماد بحال کرنے اور آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے اصولوں کو برقرار رکھنے کی امید کر سکتا ہے۔ جیسا کہ آئندہ انتخابات کے پیش بندیاں کیں جا رہی ہیں۔بامقصد اصلاحات کا عہد کرنا ہوگا جو انتخابی عمل کی سا لمیت کو محفوظ بنائیں۔ پاکستانی جمہوریت کا مستقبل ان چیلنجوں سے نمٹنے اور انتخابی میدان میں شفافیت، احتساب اور شمولیت کے اصولوں کو برقرار رکھنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔