جی قارئین! آپ سب جانتے ہیں کہ یہ رمضان المبارک ہے، ماہِ مقدس، ہجری سال کا نواں مہینہ۔ یہ۱۴۴۴ ہجری ہے۔ آج سے ۱۴۶۰ سال قبل اسی ماہِ مبارک میں دنیا بلکہ کائنات کی سب سے عظیم کتاب کے نزول کا آغاز ہوا تھا۔ وہی کتاب جس کا نام قرآن ہے۔ قرآن: یعنی سب سے زیادہ اور بار بار پڑھی جانیوالی کتاب۔ ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ہے کہ اس سے زیادہ مطالعہ کسی کتاب کا نہیں کیا گیا اور قیامت تک اس ریکارڈ کے ٹوٹنے کا کوئی امکان یا خطرہ نہیں۔ قرآنِ مجید جو ربِ رحیم کی جانب سے کائنات کی سب سے عظیم شخصیت پر نازل کیا گیا۔ ہم دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہوئے جن جن چیزوں پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان میں آسمانی کتابیں بھی شامل ہیں اور آسمانی کتابوں میں سرِفہرست یہی قرآن ہے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایمان اُس چیز پر لایا جاتا ہے، جس کے مندرجات و مقاصد سے مکمل آگاہی حاصل ہو۔ ہم دنیا کے مارے ہوئے لوگ دنیاداری کے معاملات میں تو اس قدر محتاط ہیں کہ کسی کاغذ کے پرزے پر اس وقت تک دستخط نہیں کرتے یا کسی کام کی اس وقت تک ہامی نہیں بھرتے ، جب تک اس کی ایک ایک شِق یا جزو سے آگاہی حاصل نہیں کر لیتے لیکن قرآن پر ایمان لانے کے سرعام داعی ہوتے ہیں، اکثر تمام عمر اس کے مندرجات یا اغراض کا اِدراک حاصل نہیں کر پاتے۔ حتیٰ کہ ہم یہ تک بھی نہیںجان پاتے کہ جو رویہ ہم اس عظیم کتاب کے ساتھ روا رکھیں گے، وہی سلوک اس کتاب کے خالق کا ہمارے ساتھ ہو گا۔ یقین نہ آئے تو دنیا بھر اور بالخصوص برعظیم کے مسلمانوں کی حالتِ زار پہ نظر کی جا سکتی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک علامہ صاحب بڑے دکھ کے ساتھ بتانے لگے کہ برعظیم کے مسلمانوں کو یقیناً قرآنی زبان کی اجنبیت کا مسئلہ درپیش ہے لیکن یہ بھی مشاہدے میں آیا ہو گا کہ اگر والدین کو ان کے کسی ایسے بچے کا خط موصول ہو جائے جو سال ہا سال سے دیارِ غیر میں مقیم ہو اور اس نے اسی اجنبی زبان میں خط تحریر کیا ہو تو والدین اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک اس خط کے ایک ایک لفظ یا جملے کی تفہیم کو ممکن نہ بنا لیں۔ اسی طرح کسی خانوادے کو گھریلو سامان کی پرکھ پرچول کرتے ہوئے کچھ ایسے کاغذات یا دستاویزات ہاتھ لگ جائیں، جس میں ان کے رتی بھر فائدے کا امکان موجود ہو۔ وہ کاغذات خواہ کیسی ہی دقیق، شکستہ، بوسیدہ، غیرمانوس یا گنجلک زبان میں ہوں، ہم ان کے مقاصد یا نوعیت سے آگاہ ہونے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے… تو دوستو یہ بات قابلِ غور ہی نہیں گریبان میں جھانک کر پانی پانی ہو جانے والی ہے کہ ایک ایسی کتاب جس کا ایک ایک لفظ، ایک ایک نقطہ بلاشک و شبہ دنیاوی و اُخروی فیوض و برکات سے لبریز ہے، ہم اسے ایک خط یا کرم خوردہ دستاویز کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے!!! قرآنِ مقدس کے ساتھ ہمارا زیادہ سے زیادہ تعلق یہ ہے کہ ہم اسے اپنے گھر میں رکھنا باعثِ برکت سمجھتے ہیں۔ گھر میں اسے رکھنے کا انداز بالعموم یہی ہے کہ کسی ریشمی یا موٹے کپڑے کے جکڑ بند قسم کے غلاف میں لپیٹ کر گھر کے سب سے دشوار گزار مقام پر رکھا جاتا ہے۔ موقف اس پر یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ اس طرح اسے انسانی پشت (کنڈ) ہونے سے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ واہ رے انسان! تو ساری زندگی اسے دل کی ’’کنڈ‘‘ کیے رکھتا ہے، عمر بھر اس کے مفاہیم و مطالب کو پسِ پشت ڈالے رکھتا ہے لیکن ظاہری اور جسمانی کنڈکے ارتکاب سے کس قدر محتاط ہے۔ شاعر مشرق نے غیبی آواز میں کیے گئے ’’جواب شکوہ‘‘ میں سچ کہا تھا: میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا جس نے میرے قرآں کو سینوں سے لگایا جس نے تھے تو وہ آبا ہی تمھارے مگر تم کیا ہو؟ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو؟ آج اس ہدایتِ کاملہ کے بارے میں ہماری معلومات کی نوعیت یہ ہے کہ اس میں تیس پارے، ایک سو چودہ سورتیں، پانچ سو چالیس رکوع، ۶۶۶۶ آیات، ۸۶۴۳۰ کلمات اور ۳۳۳۷۶۰ حروف ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس میں کتنی بار اللہ کا نام آیا ہے اور کتنی بار کسی پیغمبر اور فرشتے کا ذکر ہے، حتیٰ کہ ہمیں تو اس کے زیروں، زبروں، پیشوں، جزموں، سجدوں، وقوفِ لازمی و اختیاری، نقطوں اور جملہ حروفِ تہجی کی الگ الگ تعداد بھی معلوم ہے۔ ہمیں اس بات کا بھی علم ہے کہ اس کے ایک حرف میں دس نیکیاں پوشیدہ ہیں۔ ان نیکیوں کی گنتی میں اضافہ کرنے کے لیے ہم نے کئی طریقے ایجاد کر لیے ہیں۔ کہیں ان نیکیوں کو کھجور کی گھٹلیوں پہ شمار کرتے ہیں، کہیں اس مقصد کے لیے بھنے ہوئے خستہ چنے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ گنتی کا بہتر ریکارڈ مرتب کرنے کے لیے ہم نے سیکڑوں قسم کی تسبیاں ایجاد کر لی ہیں۔ اس سے ہماری عقیدت کا یہ عالم ہے کہ اپنے ننھے منھے بچوں کو اس کے رٹے لگواتے ہیں، رنگارنگ کاغذوں پہ لکھوا کے یا چھپوا کے دیواروں پہ لٹکاتے ہیں۔ تعویذ بنوا کے گلے میں حمائل کرتے ہیں۔ مدرسوں سے آٹے دانے کے عوض پڑھوا کے اپنے عزیزوں کی بخشش کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس کی تلاوت سے اپنی تقاریب کا آغاز کرتے ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران اس کے ایک پارہ روز پڑھنے اور سننے کا اہتمام کرتے ہیں، نہیں کرتے تو اس کی روح، اس کے مغز، اس کے نزول کے مقصد تک پہنچنے کا تکلف نہیں کرتے۔ یعنی گٹھلیوں کے دام تو کھرے کرتے ہیں لیکن اصل آموں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ذرا تردد نہیں کرتے۔ اس حقیقت سے کون آگاہ نہیں کہ قرآن دنیا کی سب سے عظیم کتاب ہے اور اس کتاب کا سب سے بڑا موضوع انسان ہے۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان ایک مشین ہے اور قرآن اس مشین کو چلانے کا کتابچہ۔ اگر اس مشین کو کتابچے کے مطابق چلایا جائے تبھی اس کی مناسب کارکردگی اور بہتر انجام کی گارنٹی دی جا سکتی ہے۔ آج انسان سے زیادہ مسلمان کی صورت حال مخدوش ہے اور یہ سب کچھ قرآن سے دُوری کی وجہ سے ہے۔ قرآن سے ہمارے موجودہ تعلق کو ماہر القادری کی نظم ’’قرآن کی فریاد‘‘ میں بہتر طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے، جو لکھتے ہیں: طاقوں میں سجایا جاتا ہوں، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں جُزدان حریر و ریشم کے اور پھول ستارے چاندی کے پھر عطر کی بارش ہوتی ہے،خوشبو میں بسایا جاتا ہوں جس طرح سے طوطا مینا کو، کچھ بول سکھائے جاتے ہیں اِس طرح پڑھایا جاتا ہوں، اِس طرح سکھایا جاتا ہوں جب قول و قسم لینے کے لیے تکرار کی نوبت آتی ہے پھر میری ضرورت پڑتی ہے، ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے، قانون پہ راضی غیروں کے یوں مجھے رسوا کرتے ہیں، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں کس بزم میں مجھ کو بار نہیں، کس عُرس میں میری دھوم نہیں پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں