نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی وفاقی وزارتوں سے اہم امور پر بریفنگ طلب کی ہے ۔انوار الحق کاکڑ ایوان صدر میں نگران وزیر اعظم کا حلف اُٹھانے کے بعد وزیر اعظم ہائوس پہنچے ، سبکدوش ہونے والے وزیر اعظم شہباز شریف نے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو مبارکباد پیش کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ نگران وزیر اعظم کو یقیناً اہم مسائل درپیش ہوں گے جن میں شفاف اور بروقت الیکشن کا انعقاد سرفہرست ہے، مہنگائی کا عفریت غریبوں کو نگل رہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے وہ کیا اقدامات کرتے ہیں، ملک کو در پیش گھمبیر مسائل کے حل کیلئے نگران وزیر اعظم کو باصلاحیت ، تجربہ کار اور ملک سے محبت کرنے والے افراد کی ٹیم چاہئے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ نگران کابینہ میں صوبوں کے ساتھ پسماندہ اور ترقی سے محروم خطوں کی نمائندگی بھی ضروری ہے مگر ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ وسیب کو نظر انداز کیا جاتا ہے ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی نگران کابینہ کو دیکھئے ، اس میں وسیب کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی تقرری کے بعد اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ نگران وزیر اعظم چھوٹے صوبے سے ہو تاکہ چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم ہو سکے حالانکہ راجہ ریاض نئے صوبے بنانے کی بات کرنی چائے تھی تاکہ بہت حد تک چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم ہو۔ راجہ ریاض نے چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ختم کرنے کی بات تو کی ہے مگر بڑے صوبے کا حجم کم کرنے کی بات کیوں نہیں کی جاتی؟۔ نئی مردم شماری کے مطابق صوبہ پنجاب کی آبادی 13 کروڑ کے لگ بھگ ہے یعنی کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی ایک صوبے پر مشتمل ہے جو کہ وفاق پاکستان کے توازن کیلئے کسی بھی صورت نیک شگون نہیں ہے، موجودہ سیاسی بحران کی بات ہو یا ماضی پر ہم نظر دوڑائیں تو ہر بحران کی وجہ پنجاب کا بڑا حجم نظر آئے گا، اس بناء پر ضروری ہے کہ مستقبل میں سیاسی بحرانوں پر قابو پانے کیلئے نئے صوبے بنائے جائیں ۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں سندھ میں بہت زیادہ بے چینی تھی اور اس دور میں سندھو دیش کی تحریک کو بھی تقویت مل رہی تھی، اس کے توڑ کیلئے ضیاء الحق نے نہ صرف یہ کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنایا بلکہ سندھ کے رورل اور اربن کیلئے سی ایس ایس کے کوٹے کی معیاد بھی بڑھا دی ، سول بیورو کریسی کے ساتھ ساتھ ملٹری میں سندھیوں کو نمائندگی دینے کیلئے سندھ رجمنٹ بھی قائم ہوئی اور پنوں عاقل میں چھائونی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ، اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مسئلہ اس وقت حل کیا جاتا ہے جب لوگ حکمرانوں کیلئے مسئلہ بنتے ہیں ، حالانکہ یہ روٹین کے مسائل ہوتے ہیں ، انہیں عام حالات میں وقت کے ساتھ ساتھ حل ہونا چاہئے۔ آج بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے، اس بناء پر بلوچستان کو اہمیت دی جا رہی ہے ، ملکی تاریخ میں بلوچستان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا ہے کہ 3 اہم عہدوں پر بلوچستان کی اہم شخصیات براجمان ہیں ، نگران وزیر اعظم تعینات ہونے والے انوار الحق کاکڑ اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ اگلے ماہ 16ستمبر کو چیف جسٹس آف پاکستان بننے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں، حالانکہ دیکھا جائے توعہدے عارضی ہوتے ہیں ، اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ چھوٹے صوبوں اور محروم خطوں کو مستقل بنیادوں پر اس کا حق ملنا چاہئے۔ جب ہم نگران حکومتوں کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ 1990ء میں غلام مصطفی جتوئی پاکستان کی تاریخ کے پہلے نگران وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ بلخ شیرمزاری 18 اپریل 1993ء سے 26 مئی 1993ء تک نگران وزیراعظم رہے۔ 18 جولائی 1993ء کو معین قریشی نگران وزیر اعظم بنے ۔ ملک معراج خالد نے 6 نومبر 1996 ء سے 17 فروری 1997ء تک بطور نگران وزیراعظم اپنے فرائض انجام دیے۔ محمد میاں سومرو 16 نومبر 2007ء سے 24 مارچ 2008ء تک نگران وزیراعظم رہے، میر ہزار خان کھوسو کا بطور نگران وزیراعظم تقرر 25 مارچ 2013 ء کو عمل میں آیا اور 5 جون 2013 ء کو وہ اپنے منصب سے سبکدوش ہوئے۔ سابق چیف جسٹس ناصر الملک نے نگران وزیراعظم کے طور پر یکم جون 2018 ء سے 18 اگست 2018 ء تک ملک کا انتظام سنبھالا اور اس دوران ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا، موجودہ نگران حکومت اور وزیر اعظم کیلئے نیک خواہشات رکھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے دور میں محروم طبقات کو ان کا حق دینے کے ساتھ بروقت اور شفاف الیکشن کرا سکیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت کی مدت پوری ہونے یا اسمبلی کی تحلیل کے بعد انتظام حکومت سنبھالنے کے لیے نگران حکومت کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے، آئین کے آرٹیکل 224 کے تحت اسمبلی کی معیاد پوری ہونے یا اسے تحلیل کیے جانے کی صورت میں دو سے تین ماہ کی مدت کے لیے صدر کی جانب سے نگران حکومت قائم کی جاتی ہے، نگران حکومت اپنی نگرانی میں نئے انتخابات کرانے کی ذمے دار اور نئی حکومت کی تشکیل تک ملکی امور چلانے کی مجاز ہوتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 1977ء کے انتخابات کے بعد پہلی بار عام انتخابات کے لیے نگران حکومتوں کا مطالبہ کیا گیا۔ محمد خان جونیجو کی حکومت کے خاتمے کے بعد 1988ء میں پہلی بار صوبوں میں گورنرز کے ماتحت نگران حکومتیں بنائی گئیں لیکن اس وقت نگران وزیر اعظم کا تقرر نہیں کیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں 1990ء سے اب تک سات نگران حکومتیں تشکیل پاچکی ہیں، ایسے نگران وزیر اعظم بھی پاکستان آئے جن کا شناختی کارڈ انہیں ائیرپورٹ پر دیا گیا،ایک نگران حکومت کو توڑی گئی اسمبلی کی سپریم کورٹ سے بحالی کے بعد گھر جانا پڑا۔