مجھ کو میری ہی اداسی سے نکالے کوئی میں محبت ہوں محبت کو بچا لے کوئی میں سمندر ہوں میری تہہ میں صدف ہے شاید موج در موج مجھے آ کے اچھالے کوئی بس ایک اداسی سی تھی جو ایک خبر سے ذرا اور گہری ہو گئی۔ ’’یہ بھی تقدیر ہے یاحسن نظر ہے اپنا۔ کوئی ٹھوکر سے گرائے تو سنبھالے کوئی۔‘‘ ذہن تاریک سے کمرے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جی میں آتا ہے اسے آ کے اجالے کوئی۔ اور پھر ہم تو اجڑے ہیںبیابان سے جنگل کی طرح۔ دل بسانا ہے کسی کو تو بسالے کوئی۔ جی میں بات کر رہا تھا اداس خبر کی جو سوشل میڈیا پر دوستوں نے وائرل کی۔ ڈاکٹر محمد اصغر یزدانی نے پوسٹ بھی لگا دی کہ ہوکے‘ ہنجو‘ ہاواں دے گئے۔ جرموں ودھ سزاواں دے گئے۔ آپ جناب سرکار پارٹی کے بانی چیئرمین متبادل وزیراعظم نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ تو صاحبو اس خبر کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔ دیکھنے کو تو آپ کو اس کا حال حلیہ ایک مذاق لگتا تھا مگر اس کے پیچھے تلخ حقیقت تھی اور وقت کی کھلی سیاسی منافقت جھلکتی تھی۔ جو لوگ شہزادہ امبر کو نہیں جانتے تو کچھ عرض کئے دیتا ہوں۔ یہ 80 کی دہائی کے بعد کی بات ہے جب ادب اور شعر و شاعری اپنے عروج پر تھی۔ جہاں پاک ٹی ہائوس‘ چائنیز ریسٹورنٹ اور کیفے ٹیریا یونیورسٹی کے علاوہ بھی کئی مقام تھے جہاں شاعر اکٹھے ہوتے تھے مگر گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی ایک زبردست ادبی فضا تھی، بڑے بڑے مشاعرے ہوتے۔ بس یہیں ایک منفرد اور بانکا سا نوجوان تھا۔ جو مشاعرہ شروع ہونے سے پیشتر ٹھیک وقت پر نمودار ہوتا۔ اس نے اوپر کو مڑتی ہوئی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں۔ نوابوں والا کھلا چہرا۔ آنکھوں میں شرارتی ہنسی ہوتی۔ اس نے شیروانی زیب تن کی ہوتی۔ کف دی ہوئی شلوار اور کرتا۔ ہاتھ میں ایک سٹک ہوتی۔ اس کو دیکھتے ہی سب طلباء و طالبات کھڑے ہو جاتے کہ یہ نشانی تھی کہ اس کے ہر دلعزیز ہونے کی۔ ایسی انٹری تھی کہ بس قہقہے بلند ہوتے۔ وہ بہت ہی پیارا محبت کرنے والا شخص تھا ۔تب میں اسلامیہ کالج سول لائنز میں لیکچرر تھا۔ گورنمنٹ کالج تو ہمسائے میں تھا۔ ان کی ادبی محفلوں اور مشاعروں میں تو میں مدعو ہوتا۔ تب وہ آگے بڑھ کر ملتا۔ وہ گورنمنٹ کالج کی رونق تھا۔ میں اس کی رحلت کی خبر دیکھ کر سچ مچ اپنے ماضی میں کھو گیا کہ ہائے ہائے کیا کیا محفلیں ہوتی تھیں پھر اداسی تو اندر در آئی کہ بس سب کو ایسے ہی بقول شکسپیئر اپنی اپنی باری پر کردار ادا کرکے چلا جانا ہے۔ ہاں میں یہ بھی بتادوں کہ شہزاد امبر شعر بھی کہتا تھا۔ میرے حافظے میں اس کے دو تین شعر کہیں رہ گئے۔ وہ اس کا طالب علمانہ زمانہ تھا: سی ایس ایس تے شے ای کجھ نیں پی سی ایس وی کر کُر لاں گے لگا وی سانو پایا کرتوں اوکھے سوکھے چر چُر لاں گے بہرحال اصل بات جو اس میں تھی کہ وہ سیاسی شعور بھی رکھتا تھا اور اس کے اندر ایک حساس محب وطن بھی تھا۔ اس سیاسی سطح پر آپ جناب سرکار پارٹی بنا رکھی تھی جس کا باقاعدہ ایک منشور تھا جس کو پڑھ کر ہنسی تو آئی تھی مگر اس تحریر میں موجودہ عہد کا ایک گہرا طنز بھی تھا۔ وہ اپنے منہ سے یہ منشور بیان کرتا اور نہایت سنجیدگی کے ساتھ پیش کرتا۔ میں پینتیس سال پرانی بات ہے مگر حافظے میں کچھ نہ کچھ ضرور ہے کہ اس کے منشور میں مرکزی بات یہ تھی کہ لیڈر بالکل بے ضمیر‘ عوام بے وقوف اور رشوت ستانی کا فروغ وغیرہ تھا۔ سچی بات تو یہ کہ یہ منشور اصل میں سیاسی لوگوں کو آئینہ دکھایا گیا تھا۔ یہی داغ تھے جو سجا کے ہم سر بزم یار چلے گئے۔ ڈاکٹر شہزادہ امبر اپنے آپ کو نواب لکھتا تھا۔ اور یقین کیجئے وہ لگتا بھی نواب تھا۔ بھاری جسم تھا سر پر پھندنے والی نوابی ٹوپی شیروانی اور باقی لوازمات۔ اس پر سب کچھ سجتا بھی بہت تھا وہ خود عجیب بانکپن سے چلتا ہوا مشاعرے میں آتا سب کھڑے ہو کر تالیاں بجاتے۔ شاعر بھی حیران رہ جاتے کہ اتنا پروٹوکول کہ بس۔ وہ ایک بے ضرر انسان تھا۔ دوسروں کے لیے ایک تفریح بننے والا اور اپنے آپ کو لافنگ سٹاک کے طورپر بش کرنے والا وہ ایک جیتا جاگتا مزیدار قسم کا کردار تھا۔ میں نے اس کو الیکشن میں حصہ لیتے بھی دیکھا۔ اسی منشور کے ساتھ جس کا تذکرہ میں کر چکا وہ اپنی خدمت آپ کے تحت اپنے پوسٹر خود ہی لگاتا پھرتا تھا۔ کچھ شرارتی طالبعلم اسکے ساتھ ہوتے۔ میں دل کی بات کہہ رہا ہوں کہ اس کا سیاسی منشور بھی تھا جو ہمارے سیاستدانوں کا اصل میں درپردہ ہوتا ہے کہ جہاں سے ملے کھائو‘ جہاں سے بھی کچھ ملے لے لو اور پرلے درجے کی منافقت۔ اپنے بارے میں سچ بولنے کا حوصلہ کون کرتا ہے۔ بہرحال وہ پیارا سا لڑکا ہمارے عہد کی ایک دلکش نشانی تھی۔ ایسے ہی مجھے غزل بہت یاد آئی کہ: لائی حیات آئے‘ قضا لے چلی چلے اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے بس فانی کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے۔ سارا منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ خاص طور پر گورنمنٹ کالج کا گولڈن جوبلی مشاعرہ کہ کون بڑا شاعر وہاں مدعو نہ ہوگا تب ڈاکٹر معین‘ اردو کے انچارج تھے۔ ہمارے پیارے صابر لودھی بھی وہاں تھے۔ میرے ہم عصروں میں وہاں عباس تابش تھا۔ گورنمنٹ کالج اس حوالے سے اساطیری حیثیت رکھتا جہاں خورشید رضوی جیسے نابغہ بھی رہے۔ تب ہم بھی تو بالکل ساتھ اورنٹل کالج میں ایم اے انگریزی کر رہے تھے۔ اولڈ کیمپس کی کنٹین ہمارا مستقل ٹھکانا ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح گورنمنٹ کالج میں ادبی نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ اس وقت توفیق بٹ نے بھی اپنی ہم سخن بنا رکھی تھی۔ گویا ہماری عمر کا بڑا حصہ اسی علاقے میں گزرا۔ پھر اس علاقے میں انارکلی بھی آتی تھی۔ ناہید اختر اور عباس نجمی بھی یاد آئے۔ اس دور یں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا سمیت اساتذہ کی ایک کہکشاں تھی۔ بڑی یادیں ہیں مگر کالج تو کالج ہوتا ہے۔ آخر میں شہزادہ امبر کے لیے بہت دعائیں کہ اللہ اس کی اپنی رحمت سے بخشش فرمائے۔ آمین۔