شہر قائد سے تعلق رکھنے والے حافظ نعیم الرحمن کثرت رائے سے نئے امیر جماعت اسلامی منتخب ہوگئے۔مرکزی شوریٰ کے ارکان کی جانب سے جماعت کی رہنمائی کیلئے تین نام پیش کئے گئے تھے، ان میں سراج الحق، لیاقت بلوچ اور حافظ نعیم الرحمن شامل تھے۔ فیصلہ ارکان جماعت اسلامی کی اکثریت نے کیا، جماعت اسلامی میں ہر پانچ سال بعد امیر کا انتخاب ہوتا ہے۔صدر الیکشن کمیشن جماعت اسلامی راشد نسیم نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ امیر جماعت اسلامی کے انتخاب میں 82 فیصد ووٹنگ ہوئی، کل 45 ہزار ووٹروںمیں چھ ہزار خواتین ہیں۔نومنتخب امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الر حمن 1972 میں حیدرآباد، سندھ میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے، ان کے والدین کا آبائی تعلق علی گڑھ سے تھا۔ وہ چار بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ نارتھ ناظم آباد بلاک A میں ایک کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے، دو بیٹے حافظ قرآن بھی ہیں۔ان کی اہلیہ شمائلہ نعیم ڈاکٹر ہیں اور جماعت اسلامی کی فعال رکن ہیں۔حافظ نعیم الرحمن نے ملک کی معروف درس گاہ این ای ڈی یونیورسٹی سے بی ای سول انجینئرنگ میں کیا، بعد ازاں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اسلامک ہسٹری میں ماسٹرز کیا۔ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور ایک فعال و متحرک طالبعلم رہنما کے طور پر اپنی شناخت منوانے میں کامیاب ہوئے۔ طلبہ حقوق کیلئے آواز اٹھانے پر وہ گرفتار بھی ہو ئے اور مختلف مواقع پر تین بار جیل کاٹی۔ اسلامی جمعیت طلبہ کراچی اور پھر صوبہ سندھ جمعیت کے ناظم بھی رہے۔ انہیں 1998 میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ یعنی مرکزی صدر منتخب کیا گیا۔ دو سال اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے فراغت کے بعد انہوں نے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور عملی سیاست میں قدم رکھا۔ 2001 کے شہری حکومتوں کے انتخابات میں انہوں نے ضلع وسطی کراچی کی ایک یونین کونسل سے نائب ناظم کا الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔ لیاقت آباد زون کے امیر جما عت اسلامی، ضلع وسطی کے نائب امیر، کراچی جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری اور نائب امیر بھی رہے۔ 2013 میں انہیں جماعت اسلامی کراچی کا امیر پہلی مرتبہ منتخب کیا گیا۔ حافظ نعیم الرحمن جماعت اسلامی کراچی کے امیر کیساتھ ساتھ‘‘الخدمت ویلفیئر سوسائٹی کراچی’’کے صدر بھی ہیں۔حافظ نعیم الرحمن پیشے کے اعتبار سے انجینئر اور ایک نجی کمپنی سے منسلک ہیں۔اپنے انتخاب سے قبل کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہا… تھانوں کی مرضی کے بغیر جرم نہیں پنپ سکتا۔ اگر کوئی اچھا اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او)بھی ہو تھانے میں تو وہ بھی کچھ نہیں کرسکتا اس لیے کہ یہ کرپشن کا پورا نیٹ ورک ہے، جو لوگ ان کو مسلط کرتے ہیں تباہی کے وہ سب سے بڑے ذمہ دار ہیں، اس لیے اب عوام کو نکلنا پڑیگا۔ہم اپنے بازاروں اور محلوں میں نوجوانوں کو اسلحہ دیں گے اور اپنا تحفظ پھر خود کریں گے، آپ ہمیں کہتے ہیں قانون ہاتھ میں نا لیں تو جس کے ہاتھوں میں قانون ہے وہ قانون نافذ کیوں نہیں کرتے؟ وہ ڈاکوں کی سرپرستی کیوں کر رہے ہیں؟ ہمیں غیر محفوظ کیوں بنایا ہوا ہے؟حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہمیں مسئلہ بتائیں ہم تعاون کریں گے، ہمارے ٹیکس سے تمام ادارے چلتے ہیں اور ہم ہی غیر محفوظ رہیں تو یہ نہیں ہوگا، پیپلز پارٹی کی حکومت کا سولہواں سال ہے تو انہوں نے کیا کیا ہے؟ یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے۔ اس سے پہلے سراج الحق کو 2014 میں جماعت اسلامی کا امیر منتخب کیا گیا تھا، وہ دس سال اس ذمہ داری پر فائز رہے، ان سے پہلے سید منور حسن، قاضی حسین احمد، میاں طفیل محمد اور مولانا سید ابوالاعلی مودودی اس ذمہ داری پر فائز رہے، جماعت اسلامی کی بنیاد سید ابوالاعلی مودودی نے 1941 میں رکھی تھی۔خیر جماعت اسلامی کے اُتار چڑھائو پر تو بعد میں بات کریں گے۔ مولانا مودودی کی موجودگی میں جماعت کے پاس نظریہ تھا، وہ اپوزیشن کی ایک توانا آواز تھے، مرکزی دھارے میں بھی شامل تھے۔مگر جب 1970 میں انتخابات ہوئے تو جماعت کے نتائج مایوس کن تھے جس پر مولانا مودودی پارٹی کی قیادت سے دستبردار ہوگئے۔مولانامودودی کی دستبرداری کے بعد جماعت اسلامی نے اپنا ایک کردار تو متعین کرایا لیکن بطور فوج کی بی ٹیم، خاص طور پر ضیا الحق کے دور میں! جماعت اسلامی بدلتے ہوئے تقاضوں کے پیش نظر سراج الحق کی صورت میں ایک نرم چہرہ لے کر آئی۔ وہ خیبر پختونخوا سے ایک بھی نشست نہیں نکال سکے۔لہٰذااس وقت جماعت اسلامی کو ایک نئے چہرے کی تلاش تھی،،، اور حافظ نعیم الرحمن بہت بہتر چوائس لگ رہے تھے ۔ اگرچہ تاریخی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جماعت ہمیشہ سے کراچی میں مضبوط پارٹی کے طور پر رہی ہے۔ خاص کر اب جب ایم کیو ایم کمزور ہوئی ہے۔ اس سے پہلے بھی جماعت اسلامی کراچی کی سیاسی کارکردگی ہمیشہ بہتر رہی ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں‘ جب بنگلہ دیش بھی پاکستان تھا‘ جماعت اسلامی نے کل چار نشستیں جیتیں۔ ان میں سے دو کراچی سے تھیں۔ دو مرتبہ کراچی میں جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات جیتے اور جماعت کے رہنما شہر کے میئر بنے۔ میئر بھی ایسے کہ لوگ آج بھی ان کی دیانت اور حسنِ کارکردگی کی گواہی دیتے ہیں۔ ملک کے کسی دوسرے حصے میں جماعت اسلامی اس کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ انتخابات میں بھرپور انتخابی مہم چلانے کے باوجود عوام جماعت کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ جماعت کے امیدوار شخصی اوصاف میں عام طور پر دوسری جماعتوں کے نمائندوں سے بہتر ہوتے ہیں۔ لوگ اس کا اعتراف کرتے ہیں مگر ووٹ نہیں دیتے۔ اس ناکامی کا بار عوام کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ ان کی اخلاقی بے حسی یا سیاسی بے شعوری کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کراچی کے لوگ کیا ان دو معاملات میں دیگر علاقوں کے مکینوں سے مختلف ہیں؟ وہ جماعت کو ووٹ کیوں دیتے ہیں؟ان کے جوابات تو حافظ نعیم صاحب کو تلاش کرنا ہوں گے،،، لیکن اُنہیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ جب جب جماعت اسلامی نے آمریت اور ن لیگ کا ساتھ دینا شروع کیا تو اُس کے بعد جماعت اسلامی بیک فٹ پر چلی گئی، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ انہوں نے جنرل ضیاء الحق کا ساتھ دیاتو حالات مزید بگڑگئے،، پھر 1988ء میں ن لیگ کا ساتھ دیا،،،تو حالات پہلے جیسے نہ رہے،،، اور زور تو اُس وقت ٹوٹ گیا جب یہ لوگ بے نظیر کے خلاف آئی جے آئی (اسلامی جمہوریہ اتحاد) کا حصہ بنے۔ خیر پھر جماعت اسلامی 1993میں اتحاد سے الگ تو ہو گئی مگر یہ اُس وقت تک اپنی مقبولیت کھو چکے تھے، عوام ان سے متنفر ہو چکے تھے،،، پھر جماعت اسلامی کے ورکرز نے انہیں چھوڑنا شروع کردیا۔۔۔ اور جماعت کا حال سب کے سامنے ہے،،، لہٰذاحافظ نعیم صاحب کو جماعت میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے،،، اس لیے وہ Attackingپوزیشن میں رہیں،،، نہ کہ دفاعی پوزیشن اختیار کریں!