ناصر عباس نیرایک روشن دماغ نقاد،افسانہ نگار اور دانشور ہیں۔آپ نے اردو ادب کو دو درجن سے زائد اہم کتب سے نوازا۔آپ اردو کے واحد نقاد ہیں جنھیں دیگر زبانوں اور علوم سے وابستہ افراد بھی انتہائی سنجیدگی سے پڑھتے اور سنتے ہیں۔ ’’نئے نقاد کے نام خطوط‘‘آپ کی تازہ کتاب ہے جسے پاکستان سمیت سرحد پار بھی انتہائی پذیرائی مل رہی ہے۔اس کتاب میں شامل تینتیس خطوط میں ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے سینکڑوں اہم موضوعات و سوالات کو گفتگو کا حصہ بنایا او ر بہ طور صنف ِ ادب اردو تنقید کو جس تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘نئے نقادوں کے راستے میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں‘انھیں بات بات پر یہ احساس دلانے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے کہ تنقید کی اپنی کوئی حیثیت نہیں‘یہ دوسرے یا تیسرے درجے کا ایک ایسا عمل ہے جس کی ادب میں کوئی خاص جگہ نہیں۔ان خطوط میں اُن ثقہ نقادوں کوبھی موضوع سخن بنایا گیا جو اپنی گفتگواور ادبی مجالس میں تنقید کی مذمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ان خطوط میں نئے نقادوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور انھیں انتہائی مدلل انداز میں سمجھایا گیا کہ جب ایک مخصوص گروہ تنقیدکو دوسرے یا تیسرے درجے کی سرگرمی کہے تو مایوس نہیں ہونا بلکہ ان اسباب پر لکھنا اور سوچنا ہے جن کی وجہ سے یہ سب کہا جا رہا ہے۔ پہلے خط سے ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں: ’’بہت سے لوگ تنقید کے خلاف جنگ کو ایک مقدس فرض سمجھ کر سرانجام دے رہے ہیں‘کبھی یہ تمہارا نام لیتے ہیں،کبھی نہیں۔تم نوجوان ہو،تمہارا خون کھول اٹھتا ہے لیکن تم ضبط سے کام لو،تیر لگے تو تکلیف ہوتی ہے،خنجر کہیں پیوست ہو تو خون کا فوارہ چھوٹ پڑتا ہے،اس کے باوجود تم اس جنگ کا حصہ بننے سے انکار کرو۔ جنگوں نے آج تک انسانوں کو کچھ نہیں دیا،سوائے موت،تباہی،رسوائی اور ذلت کے۔انسانی تہذیب جن چیزوں پر فخر کر سکتی ہے،وہ سب یا تو انسان کی تنہائی کی پیداوار ہیں یا دوسرے سے مکالمے کی۔تم اپنی تنہائی میںامن سے جینا سیکھو اور دوسروں سے مکالمے کو اپنا وطیرہ بنائو۔جب کسی اپنے یا پرائے کا خنجر پہلو میں پیوست ہو تو کربلا کے معصومین کو یاد کر لیا کرو یا مہاتما بدھ کی دہشت گرد سے ملاقات کا تصور کر لیا کرو۔یہ سوچا کرو کہ جو تمہیں تکلیف پہنچاتے ہیں،وہ اپنی پیدا کردہ بدروحوں کے ہاتھوں زخمی بھی ہوتے ہیں۔‘‘ آپ پہلے خط سے ہی اندازہ لگائیں کہ ناصر عباس نیر نے نوجوان نقاد کو تیروں کا جواب مکالمے اور دعا سے دینے کی ترغیب دی ہے لیکن یہاں فاضل نقاد نے یہ بھی وضاحت کی کہ سوالوں کا جواب دیا جاتا ہے‘دشنام و ملامت کا نہیں اور ہم نے دیکھا کہ اردو تنقید اور ناقدین پر جب تیر برسائے جا رہے تھے‘اس میں ناصر عباس نیر سرفہرست تھے‘انھوں نے ہر علمی سوال کا سامنا کیا‘دشنام و ملامت کرنے والوں کو بھی مکالمے اور سوچنے کی دعوت دی‘ہر وہ شخص جو تنقید کو پرلے درجے کی سرگرمی سمجھ رہا تھا‘اسے سمجھایا کہ یہ کوئی علمی رویہ نہیں کہ جو چیز یا موضوع تمہاری سمجھ سے باہر ہے یا جن اصطلاحوں کا مفہوم تمہاری دانست سے ماورا ہے،اسے رد کر دو بلکہ مکالمے کو اپنا وطیرہ بنائو۔ دوسرے خط سے بھی ایک اقتباس دیکھیں جس میں فاضل نقاد نوجوان نقاد کو سوال اور اعتراض میں فرق کرنا سکھا رہے ہیں:’’سوال اور اعتراض میں فرق کرنا سیکھو،جب کوئی شے اہم محسوس کی جانے لگے اور لوگ اس سلسلے میں بیک وقت متجسس اور سہمے ہوئے ہوں،اسے سمجھنے اور اسے زیر کرنے کی خواہش ،ایک ہی وقت میں جنم لینے لگے تو سوالات اور اعتراضات کی یورش ہونے لگتی ہے۔سمجھنے کی خواہش سوال کو اور زیر کرنے کی تمنا اعتراض کو جنم دیتی ہے۔ سوال اٹھانے والوں کو اپنا ہمدرد ہی نہیں اپنا ہم سفر خیال کرو۔‘‘یہاں پھر وہی بات کہ سوال اٹھانے والے اور اعتراض کرنے والے، دونوں الگ ہوتے ہیں۔ سوال کرنے والے آپ کو کسی خیال، فکر یا نظریے کو سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں مگر اعتراض کرنے والو ں کا مقصد محض آپ کی حوصلہ شکنی ہوتا ہے،ان سے بچنے کی ضرورت ہے۔ناصر عباس نیر کی یہ کتاب ان لوگوں کے لیے رہنما کا کردار اد اکر رہی ہے جو زندگی میں کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں‘وہ کچھ نیا لکھنا چاہتے ہیں‘نئے سوالات اٹھانا چاہتے ہیں مگر انھیں چاروں طرف سے طاقت اور طنزوتضحیک کے خوف نے گھیر رکھا ہے‘اس کتاب کے تینتیس خطوط اس طاقت اور خوف کا اثر زائل کرنے کے لیے لکھے گئے‘جس کا سامنا ہر نوجوان نقاد اور تخلیق کار کو ہوتا ہے۔ دوسرے خط میں ہی فاضل مصنف نے سوالوں میں فرق کرنے پر بھی زور دیا‘جیسے آپ لکھتے ہیں: سوالوں میں فرق کرنا بھی لازمی ہے،کچھ سوال تمہیں بھٹکا سکتے ہیں،تمہیں غیرضروری بحثوں میں الجھا سکتے ہیں۔تم جانتے ہو جس طرح پھیپھڑوں کو تازہ ہوا چاہیے ،اسی طرح ذہن کو بھی تازہ دم رہنے کے لیے کوئی نیا خیال،انوکھا نکتہ،فرضیہ،یہاں تک کہ پہیلی یا کوئی پزل چاہیے۔تم نے دیکھا ہوگا کہ انسانی ذہن کی اس خصوصیت کا فائدہ طاقت وروں نے بہت اٹھایا ہے۔جب اصل مسئلے سے توجہ ہٹانی ہوتولوگوں کو سوچنے اور بحث کے لیے کوئی فرضیہ،پہیلی،کوئی سکینڈل دے دیا جاتا ہے،یہی وہ وقت ہے جب نقاد کو ضروری اور غیر ضروری سوالوں میں فرق بتانا چاہیے۔‘‘مجھے اس اقتباس سے تنقید پر سوال اٹھانے والوں کے علاوہ طاقتور معاشرے کی نفسیات سمجھنے میں بھی بہت مدد ملی، ہمارے ہاں غیر اہم سوالوں اور پہیلیوں میں الجھا کر عوام کی توجہ مین اسٹریم ایشوز سے ہٹانے کا مذموم عمل برسوں سے جاری ہے،ہم اپنے لوگوں کو سوال کرنے اور سوال سمجھنے کی صلاحیت سے عاری کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہمارے ہر غیر ضروری بیان کو بھی اہم سمجھیں اور ہماری کہانیوں پر سچائی کا پردہ ڈالیں۔ایک نقاد اور دانشور کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی ان حقیقتوں کو بے نقاب کرے جسے ایک مخصوص گروہ نے طاقت کے نشے میں ہماری پہنچ سے دور کر دیا‘ان سوالوں کو اٹھائیں جنھیں شجرِ ممنوعہ قرار دے دیا گیا‘ناصر عباس نیر نے انہی حقیقتوں کو بے نقاب کیا ہے اور نوجوان ناقدین کو سمجھایا کہ ان کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ہے اور اگر وہ اس میں ڈنڈی ماریں گے‘تو ان کی آواز بھی ان لاکھوں کروڑوں آوازوں میں شامل ہو جائے گی‘جس کا زندہ یا مردہ ہونا برابر ہے۔دوستو!آپ فاضل مصنف کے لیے دعا کر دیں اور کتاب خریدنے کے لیے سنگ میل پبلی کیشنز سے رابطہ کریں۔