خواب اپنا قریںکا تھا ہی نہیں وہ ستارا جبیں کا تھا ہی نہیں بے یقینی کی بات کیا کرتے مسئلہ تو یقین کا تھا ہی نہیں بات بعض اوقات کچھ ہوتی ہے اور سمجھی کچھ آتی ہے ۔آسمان سے مجھے اتارا گیا یعنی میں اس زمیں کا تھا ہی نہیں، کوئی نظر کرم ہوتی مجھ پر ورنہ میں تو کہیں کا تھا ہی نہیں۔اب آتے ہیں اس بات کی طرف جو ہمیں کرنی ہے مگر ہر بات سے پہلے کچھ اہتمام تو ہوتا ہے یہ اہتمام بھی ایسا ہے کہ آپ خوش ہو جائیں تو معزز قارئین ہوا یوں کہ محفل میں کسی دوست نے گلہ کیا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا پوچھنے پر اس محترم نے بتایا کہ ان کے دوست غلام عباس جلوی نے دوسری شادی کی تو دوستوں کو دعوت دی ظاہر ہے یہ دوسری شادی کا ولیمہ ہی ہو سکتا تھا مگر ہمارے دوست نے بتایا کہ سب دوست پورے خشوع و خضوع کے ساتھ ولیمہ ثانی کے لئے ان کے ہاں گئے مگر ہوا تو کچھ اور ہی۔ سماں تھا چادریں اور گٹھلیاں کہ جلوی صاحب نے پہلی بیوی یعنی مرحومہ کے ایصال ثواب کا بندوبست کر رکھا تھا سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ مجھے معاً عطاء الحق قاسمی کی سالگرہ یاد آئی کہ الحمرا میں انہوں نے دوستوں کے لئے پرتکلف اہتمام کر رکھا تھا کئی قسم کی ڈشیں تھیں اور اس پر امجد اسلام امجد اور عطاء الحق قاسمی کے لطیفے درمیان میں ایک دوست کی بدقسمتی کہ مخل ہو کر عطاء الحق قاسمی صاحب سے اپنی دوستی اور تعلق جتانے لگا۔ کہا عطاء تمہیں یاد ہے کہ ہمارے تعلق کو پورے چالیس سال ہو چکے۔ عطا صاحب نے برجستہ کہا جناب اسی کا چالیسواں تو ہم کھا رہے ہیں پھر کیا تھا محفل کشت زعفران بن گئی۔ کچھ باتیں ہوتی ہیں غیر متوقع سی اور وہ لطف دے جاتی ہیں ایسے ذہن میں ایک شعر نے شرارت کی: ایسا ہنستا ہوا چہرہ کہیں دیکھا ہی نہ تھا کہہ دیا میں نے بھی بے ساختہ سبحان اللہ اس سبحان اللہ کی تو ہمیں اجازت بھی ہے مگر اس سے آگے نہیں کہ اس کے نتائج کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔مشتاق یوسفی نے اپنی کہانی سنائی کہ وہ بس میں سفر کر رہے تھے کہ ایک محترمہ سے بات کرنے کے بہانے پوچھا کہ اس نے پرفیوم کون سا لگایا ہے یعنی وہ اپنی بیگم کے لئے خرید لیں گے عورت مردم شناس تھی کہنے لگی بالکل بھی اپنی بیوی کے لئے یہ پرفیوم نہ خریدے گا وگرنہ ایسے ہی کوئی گھٹیا شخص پرفیوم کے بہانے اس سے بات کرے گا۔ یہاں مشتاق احمد یوسفی کہ ان کا انقلابی کلام! اقبال کی اساس پر آیا وہ قوم تھی اس لئے شاعر ملت سے راہ مل گئی ہم قوم نہیں ہجوم ہیں وہ عظیم المرتبت لغزہ گو جس نے ملت اسلامیہ میں روح پھونکی اور نشاۃ ثانیہ کی سمت نمائی کی اس کی شاعری ہمارے سر سے گزر گئی اور تو اور قبلہ نواز شریف نے ہمارے ہیرو کی یوم پیدائش پر ہونے والی چھٹی تک ختم کر دی کہ اس دن ہم پیغام اقبال کو دہراتے تھے یا تجدید کرتے تھے نہ جانے ان کے ذھن میں کیا سمائی شکر ہے اب ان کے برادر خورد نے یہ چھٹی بحال کر دی کہ اب تعلیمی اداروں میں روایت جاری ہو سکے: جیسے زمانہ کچھ بھی نہیں حال کے بغیر ایسے ہی اپنا حال ہے اقبال کے بغیر ایک بات ذھن نشین کر لیں کہ اقبال سخن اثاثہ سارے کا سارا تحرک کی فلاسفی میں گندھا ہوا اس کے ہاں جمود موت ہے ایک جہد مسلسل کے وہ قائل ہیں، وہی کہ جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔ یہ فلاسفی ان کی اپنی نہیں بلکہ قرات و سنت سے کشید کی ہوئی ہے کہ ایک تعمیر کا سودا ان کے سر میں تھا۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہم ذرا دیکھیں اور سوچیں کہ سب تخریب کے سوا کیا کر رہے ہیں حکومت ہو یا اپوزیشن مرکز ہو کہ صوبے کیسے کھینچا تانی ہے کوئی ٹانگ کھینچ رہا ہے تو کوئی بازو مگر جسم تو وطن کا ہے پہلے ہی ہماری انائوں اور مفادات نے اسے دو ٹکڑے کر دیا باز ہم اب بھی نہیں آئے: تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں تھی سوچتا ہوں کہ اقبال کے کون سے پہلو پہ لکھوں اور کس کو نظرانداز کروں: کس کس ادا پہ تیری میں واروں نہ اپنا دل تجھ پر ہے ختم خامشی تجھ پر سخن تمام یہ باقاعدہ ایک لابی ہے میں مافیا کا لفظ استعمال نہیں کروں گا سچ کہوں تو یہ دوست برا مان جائیں گے اس میں ادب سے زیادہ ذاتی تعلقات ہی کو اہمیت دی جاتی ہے اگر رونق کا سبب بن سکے تو اس کے لئے ادبی کام یا مقام کی بھی چنداں ضروری نہیں اور اگر آپ کے پاس صرف ادبی اور علمی سرمایہ ہے تو آپ کو نظرانداز ہی کیا جائے گا بہرحال ادب میں بھی ایک تعصب بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہی لوگ جو ان کو بھاتے ہیں ان کو بھی بلاتے ہیں۔ چلیے مل بیٹھنے میں بھی کیا حرج ہے دوست نوازی تو ہو جاتی ہے۔منیر نیازی جمیل الدین عالی کو ادب کا بیورو کریٹ کہا کرتے تھے یہ ایک ذہنیت تو ہے ناں۔ خود کو برتر سمجھنا اسی کے باعث تو اردو کانفرنس کا پروگرام انگریزی میں چھاپا جاتا ہے کیونکہ بیورو کریسی اور دوسرے افسران کو بھی بلانا ہوتا ہے جو کہ اردو بھی رومن میں لکھتے ہیں۔ مغرب سے متاثر ہونے کا ایک باعث اردو بولنے اور لکھنے والوں کا مزاج اور رویہ ہے کہ جو ماڈرن ازم کی جانب ہے یا یوں کہیں کہ عالمی ادب سے مس کرتا ہے یا یوں کہیں کہ ان کے ادب کیساتھ کچھ کچھ ثقافت بھی انہی کی اپنا لی گئی ہے اور پھر اس ثقافت کو نبھانے کے لئے انگریزی بھی دکھانی پڑتی ہے ۔ یہاں راست اور مستقیم باتوں کا گزر نہیں۔غنیمت ہیں عرفان صدیقی اور عطاء الحق قاسمی جیسے لوگ جو مثالی تقاریب اور کانفرنسز کروا گئے پھر ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کچھ میلے لگائے۔ پھر سیاست میں آنے والی بدتمیزی نے بھی ادب کو دبا دیا۔دو شعر: کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگ غزل سعد جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو