وسیب میں آم کا سیزن جونہی قریب آتا ہے تو باغات کے مالکان اور باغات میں کام کرنے والے مزدوروں کے جوش و خروش میں اضافہ ہو جاتا ہے ، آم ایک ایسا لذیذ اور میٹھا پھل ہے جو وسیب کے تمام افراد کے لئے پسندیدہ ہونے کے ساتھ ایک ایسا تحفہ بھی ہے جو اہل وسیب کی طرف سے دنیا بھر میں مقیم دوستوں کو بہترین سوغات کے طور پر بھیجا جاتا ہے ۔ ایک ستم یہ بھی ہے کہ آم کی پیداوار میں اضافے اور وسیب سے ایکسپورٹ کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات نہ ہونے سے مقامی زمینداروں کے علاوہ ملکی معیشت کو بھی خسارہ ہو رہا ہے۔ امسال پاکستان میں آم کی فصل کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا سامنا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے پیداوار 20 فیصد کمی سے 14 لاکھ 40 ہزار میٹرک ٹن تک محدود رہنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔موسمیاتی اثرات کی وجہ سے پیداوار کم ہونے کے ساتھ باغات میں بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی کم ہوئی ہے، آم کی ایکسپورٹ سے پاکستان کو 10 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہونے کا امکان ہے۔ قدرتی طور پر جہاں موسم تبدیل ہو رہے ہیں وہاں علم اور سائنس کے ذریعے انسان بھی بدلتے موسموں سے نبرد آزما ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اب تپتی گرمیوں میں ہی نہیں، کڑاکے کی سردیوں میں بھی آم پک کر تیار ہوں گے، اس سلسلہ میں میرپور خاص میں سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ سال میں دو مرتبہ آم کی پیداوار کا کامیاب تجربہ کرلیا ہے، سندھ ہارٹی کلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق ایک ہی درخت پر دو مختلف اقسام کے آم کا بھی تجربہ کامیاب ہواہے، پہلی فصل تیار ہوچکی ہے جبکہ اگلی آم کی فصل نومبر میں آئے گی۔ایک طرف سندھ میں آم کی فصل پیدا کرنے کے تجربات ہو رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وسیب میں آموں کے باغات کا قتل عام جاری ہے، وسیب کو جہاں دیگر مسائل درپیش ہیں وہاں باغبانی کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ آم پر تحقیق کیلئے 1976ء میں ملتان کی موجودہ تحصیل شجاع آباد میں ریسرچ اسٹیشن قائم کیا گیا جسے نہ تو مطلوبہ فنڈز ملے اور نہ ہی وسعت دی گئی۔ 2012ء میں ملتان میں ادارہ برائے تحقیق آم قائم ہوا جس کا مقصد آم کی پیداوار اور معیار میں اضافہ کرنا تھا مگر اس ادارے کو بھی غیر فعال رکھا گیا ہے۔ وسیب پورے پاکستان میں آم کی پیداوار کا مرکزی علاقہ ہے، سب سے زیادہ آم کی کاشت وسیب میں ہوتی ہے، وسیب میںدو لاکھ باسٹھ ہزار ایکڑ رقبے پر آم کے باغات ہیںمگر تحقیقی اداروں کے غیر فعال ہونے کی وجہ سے امسال آم پر کالے تیلے کے ساتھ فروٹ بورر کا حملہ بھی ہوا جس کی وجہ سے امی گرنے سے باغات کو شدید نقصان پہنچا جس سے آم کی پیدوار میںکمی ہوئی۔ دوسری جانب موسمی تبدیلی سے بھی آم کی مٹھاس پر اثرات مرتب ہوئے ہیں، ریسرچ کے حوالے سے صرف 80 لاکھ روپے مختص کئے گئے جس پر محکمہ زراعت کے حکام کا کہنا ہے کہ فراہم کردہ بجٹ انتہائی ناکافی تھا، آم کی پیداوار مسلسل کم ہونے سے ملکی ایکسپورٹ متاثر ہو رہی ہے جس سے زرمبادلہ کو بھی کافی حد تک نقصان پہنچ رہا ہے۔ دنیا میں پھلوں کے بادشاہ آم کی1600 کے قریب اقسام دنیا بھر میں پائی جاتی ہیں مگر صرف 25 سے 30 اقسام ایسی ہیں جنہیں تجارتی پیمانے پر اگایا جاتا ہے ، برطانیہ، یورپ، مڈل ایسٹ، امریکہ، پاکستان سمیت افریقی ممالک میں بھی آم انتہائی مقبول اور پسندیدہ پھل کے طور پر شہرت رکھتا ہے ۔ آم انتہائی غذائیت اور ذائقے سے بھر پور پھل ہے ، پاکستانی آم کو دنیا کے زیادہ ممالک میں پسند کیا جاتا ہے اس میں فائبر کی مقدار زیادہ، کیلوریز کم اور کاربو ہائیڈریٹس، کیلشیم، آئرن، پوٹاشیم اور تھوڑا سا پروٹین ہوتا ہے اور وٹامنز اے بی سی سے یہ بھر پور ہوتے ہیں ،دیگر اینٹی آکسیڈنٹ وٹامنز کا بھی ایک خزانہ اپنے اندر رکھتے ہیں ، یہ دنیا کے میٹھے پھلوں میں سے ایک ہے ۔ برصغیر آم کا مسکن ہے جہاں یہ تقریبا چار ہزار سال سے بڑھ رہا ہے اور اس کے بعد یہ دیگر علاقوں میں پھیل گیا ہے۔ پاکستان میں آم دوہزار سال سے زیادہ عرصے سے پیدا ہو رہے ہیں اور اب پاکستان دنیا کا چوتھا بڑا آم پیدا کرنے والا ملک ہے۔ پاکستان میں پھلوں کے بادشاہ کی جو اقسام پیدا ہو رہی ہیں ان میں چونسہ، سندھڑی، لنگڑا، دسہری، انور رٹول، سرولی، ثمر بہشت، طوطا پاری، فجری، نیلم، الفانسو، الماس، سانول، سورکھا، سنیرا اور دیسی شامل ہیں۔ پاکستان کا چونسہ آم دنیا کی بہترین دستیاب اقسام میں سے ایک ہے۔ چونسہ آم کی ایک قسم ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں اگائی جاتی ہے لیکن اصل میں وسیب کے اضلاع رحیم یار خان اور ملتان سے ہے ۔ یہ ایک غیر معمولی طور پر میٹھا آم ہے جس میں شاندار خوشبو اور مزیدار نرم، رسیلا ہے جس میں صرف کم سے کم فائبر ہوتا ہے عام طور پر پیلا، میٹ پیلے رنگ کا ہونا لیکن پتلی چھلکے کے اندر یہ ایک لذت ہے ۔چونسہ آم کافی موٹا اور رسیلا ہوتا ہے ۔سندھڑی آم پاکستان کی بہت مشہور اور دنیا کے بہترین آموں میں سے ایک ہے۔سندھڑی آم سندھ کی ایک معروف قسم ہے اس کی شکل بیضوی لمبا سائز بڑا، جلد کا رنگ لیموں پکنے پر پیلا، گودا رنگ زرد کیڈیم، بناوٹ ٹھیک اور مضبوط ریشے کے بغیر، درمیانے سائز کا، ذائقہ خوشگوار خوشبودار اور ذائقہ میٹھا ہوتا ہے ، اس آم کا تعلق میر پور خاص سے ہے، یہ پاکستان کا قومی پھل بھی ہے کیونکہ یہ ورائٹی پاکستان میں سرفہرست ہے۔ لنگڑا آم کا ریشہ سے کم زرد بھورا رنگ کا ہوتا ہے اور جب پک جاتا ہے تو اس کی خوشبو تیز ہوتی ہے، آم کی دیگر اقسام کے مقابلے میں یہ قدرتی طور پر بہت میٹھا اور نرم ہوتا ہے، بیج کا سائز چھوٹا اور بیضوی شکل کا ہوتا ہے ، لنگڑا آم پکنے کے بعد اس کا سبز رنگ برقرار رکھتا ہے، جب کہ دیگر آم پیلے سرخی مائل رنگ میں بدل جاتے ہیں۔دیسی آم کی دیسی اقسام چونسہ اور دسہری جیسی تجارتی اقسام کی طرح مقبول نہیں ہیںیہ سب سے سستا آم ہے اور مارکیٹ میں مشکل سے جانا جاتا ہے، اس لیے کاشتکار معاشی طور پر منافع بخش اقسام کی طرف تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔