اکیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائی کا فرد اپنے ہی تصورات میں کہیں گم ہو چکا ہے،اب وہ خوف،تنہائی اور آسیب کے حصاروں میں گھرا اپنی معنویت کو تلاش کررہا ہے،اس تلاش کے لیے وہ یا تو فرد سے رابطے کو مضبوط کرے گا یا پھر فطرت سے،انور زاہد کی نظموں سے معلوم ہوا کہ خوف اور درد کے حصار میں گھرے گم شدہ انسان کی تلاش کیسے ممکن ہے اور یہ انور زاہد کی نظموں کا کمال ہے کہ انھوں نے اپنی نظم کو معاشرے کے انتہائی تیزی سے بدلتے رجحانات اور خوف کے امکانات پر استوار کیا ہے۔آج کا فرد جب اپنے اردگرد اس مصنوعی تغیر کو دیکھتا ہے جس کے کرتا دھرتا ’’غیبی ہاتھ‘‘ ہیں‘تو وہ اندر ہی اندر چیخ اٹھتا ہے‘خوف کی اس گہری فضا میں اس کی اپنی چیخیں بھی اسے سنائی نہیں دیتیں ایسے میں انور زاہد ان چیخوں کو اپنی نظموں کا موضوع بناتا ہے‘وہ ہر اس طبقے کی کہانی لکھتا ہے جس کی کہانی پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دی گئی،جسے محض اس لیے سقراط کا ساتھی بنا دیا گیا کہ اس نے سوال کیوں کیا،انور زاہد اپنی نظموں میں نہ صرف سوال کرتے ہیں بلکہ زمینی خدائوں کو منہ توڑجواب بھی دیتے ہیں تاکہ کسی طرح کی تشنگی نہ رہے۔انور زاہد جب کہتے ہیں کہ۔۔۔۔ سمندر خامشی کا کیف اوڑھے مست سویا اونگھتا ہے؍ہوا دم سادھ کر پانی کے ہلتے لمس پر اٹکھیلیاں کرتی؍مچلتی پائلوں کی دل نشیں جھنکار پر سرگم سناتی؍کیف لکھتی پھر رہی ہے،ایسے میں میرا دھیان سمندر اور ہوا کی طرف تو جاتا ہی ہے مگر اس ہوا کو سوگورا کرنے والوں کو بھی نظر انداز نہیں کرتا ۔اسی طرح انور زاہد کی نظم’’سپنا ‘‘ جس میں خواب کے مرنے کی کہانی ہی نہیں سناتے بلکہ اندھیرے کمرے میں دیوار سے سر ٹکراتی تنہائی اور اداسی کی تکلیف دہ کہانی بھی سناتے ہیں،اسی نظم میںدن کو رات میں بدلنے والے زمینی خدائوں کے جبر اور نام نہاد خوف پر بین بھی کرتے ہیں جنھوں نے ہماری خوشبو کو بوسیدہ کر دیا،ہمارے بچوں کے ہاتھ سے خوشیاں اور رات کے سپنے چھینے اور انھیں ایسی صبحین دیں جن کی کرنیں کسی بھی زندان نے کم نہیں۔نوحہ‘‘نظم بھی اس لشکر کی کہانی ہے جسے جنگ جیتنے کے بعد یہ کہا جائے کہ تم جیت کی جگہ شکست تسلیم کرو،اگر ایسا نہیں کرو گے تو تمہاری جیت تو لہولہان کر دیں گے،تمہاری نسلیں زندگی کی شکست و ریخت میں ہمیشہ بین کرتی رہیں گے اور تمہارا نام و نشاں تلاشتی رہیں گی۔ انور زاہد اس نسل کا نظم گو ہے جسے درد کا ایسا پژمردہ ماحول دیا گیا کہ وہ صدیوں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اجنبی ہے،ایک دوسرے کی قربت کے باوجود یہ نسل ایک دوسرے کے درد اور تکلیف سے ناآشنا ہے،یہ ناآشنائی نوتونگروں کی طرف سے پیدا کی گئی تاکہ یہ لوگ ایک دوسرے کی چیخوں اور تکلیفوں سے قطع تعلق رہیں،اسی میں ان نوتونگر خدائوں کی بقا تھی۔انور زاہد اس صورت حال کی عکاسی اپنی نظم ’’ابھی ہم اجنبی ہیں‘‘میں کرتے ہیں اور چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ ’’سنو یہ پاس رہنا تو ہزاروں دوریوں کے زہر سے بھی بڑھ کے مہلک ہے‘‘۔اس میں کیا شک ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کے ساتھ تو ہیں مگر یہ ساتھ انتہائی مہلک ہے،ہم مادی ترقی کی دوڑ میں اپنے پیاروں سے صرف دور ہی نہیں ہوئے بلکہ ہم اپنے آپ سے بھی دور ہو گئے‘کیسی خوف ناک صورت حال ہے کہ ہم خود بھی اپنی چیخ سننے سے قاصر ہیں مگر ہماری چیخیں انورزاہد سن رہے ہیں اور شور مچا رہے ہیں کہ ’’بے یقیں دیاروں کو کس طرح یقیں آئے؍جو گھروں سے نکلے تھے لوٹ کر نہیں آئے۔ انور زاہد کی نظم ہمیںدرد کی اس تہذیب سے متعارف کرواتی ہے جو ہماری روح تک کو چھلنی کر چکی،انور کی نظم بجھتے چہروں پر گرتی راکھ ،جھڑتے اشکوں اور جلتی مشعلوں میں جنگل کی جانب اٹھتے ان قدموں کی وحشی چاپ کا درد بھی بتاتی ہے جو تاروں کے تجسس اور صبح کی تلاش میں گھروں سے نکلے مگر کبھی واپس نہیں آئے۔وہ قافلے کہاں گئے اور کیسے لٹے جن کی آنکھوں میں خواب چمکتے تھے‘جن کی راتیں جگنوئوں کی طرح چمکدار اور صبحیںخوشبودار ہوتی تھیں، نفرت اور تعصب کے حصار میں بیٹھے خونخوار بھیڑیے نہ صرف میری نسل کے خواب لہولہان کر گئے بلکہ ہماری ہمارے ہاتھ میں کشکول دے کر پوچھتے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے؟ہمیں کیوں کہانی سے باہر کیا جا رہا ہے؟وہ کہانی جسے اس متعصب اور خون خوار بھیڑیے نے اپنی مرضی سے لکھا تھا‘اس کہانی سے اسے کیوں باہر کیا گیا‘وہ سوال پوچھتا ہے اور اس سوال کا جواب انور زاہد اپنی نظموں میں دیتے ہیں۔ آپ انور زاہد کی نظم’’افتاد‘‘قرأت فرمائیں،ہوا کی ریت پر لکھی کہانی کے سمندر میں؍مچھیرے خواہشوئوں کے چپوئوں سے چاپ لکھتے ہیں؍اندھیرا گیسوئوں سے تیرگی کا جال بنتا ہے؍ہوا تاروں کے منڈپ میں کہیں لوری سنائے تو؍چندرما مسکراتا ہے؍بھنور سے مد اٹھاتا ہے؍مگر جب وقت آنکھیں پھیر لے ۔۔۔۔دل ڈوب جاتا ہے۔انور زاہد بارہا کہتے ہیں کہ ‘‘کسی کا کیا گیا افتاد تو ساحل پہ آئی ہے‘‘۔دکھ تو یہ ہے کہ میرے معاشرے کا قلم کار ساحل اور ساحل پر بیٹھی سیپیاں چنتی نسل پہ آنے والی افتا دکودانستہ یا نا دانستہ نظر انداز کررہا ہے،انور زاہد اس نسل پر آنے والی افتاد کا نوحہ لکھ رہے ہیں۔میں انور زاہد کا ممنون ہوں کہ جو قلم ہم سب قلم کاروں کے کرنے کا تھا‘اکیلے انور زاہد کر رہے ہیں اور ہمیں احساس دلا رہے ہیں کہ جب قلم کار ہی فیوڈل مافیا اور نوتونگر کی نوکری کرنے لگے گا تو درد کی تہذیب کی کہانی کون لکھے گا۔میں مرزا یاسین بیگ کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اتنی اہم کتاب اور تقریب میں گفتگو کا موقع فراہم کیا‘پاکستان رائٹرز کونسل اور تاریخ انٹرنیشنل نے اس سے قبل بھی شاعری اور نثر کی کئی درجنوں اہم کتب پر سیمینارز اورتقاریب منعقد کروائیں۔انور زاہد کی کتاب جدید اردو میں نظم میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے‘ایسی کتب پر بات ہونی چاہیے تاکہ ہم مشاعراتی فضا سے نکل کر اچھی نظم پڑھ اور سن سکیں۔بدقسمتی سے غزل کی فضا میں نظم ہمیشہ نظر انداز ہوئی اور ایسی نظم جو پہلی قرأت میں قاری کے شعور اور لاشعور سے ماورا ہو‘اسے چند سنجیدہ لوگوں کے علاوہ نہ پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی اہمیت دی جاتی ہے۔