10 مئی کو صبح ناشتہ پراٹھا اور شہد کا کیا۔ ناشتے کے بعد شارجہ لائبریری دیکھنے کا ارادہ تھا۔ یہ لائبریری کم و بیش 100 ایکڑ رقبہ پر ہوگی۔ لائبریری سے پہلے تین چار طرح کے میوزیم پہلو پہ پہلو ہیں۔ لائبریری شہر کے مرکزی چوک میں بالکل نکڑ پر ہے۔ گاڑی مرکزی پھاٹک سے اندر داخل ہوئی۔ اندرداخل ہوئے تو دیوار کے ساتھ آرائشی پودے اور گھاس کے قطعات تھے۔ بائیں طرف اونچے ستونوں والی ایک بہت بڑی عمارت نظروں میں حیرانی بھر رہی تھی۔ لاہور میں قائداعظم لائبریری جیسی کوئی پانچ چھ عمارتیں شارجہ کی اس لائبریری کے اندر سے نکل سکتی ہیں۔ ستونوں کے نیچے تخت تھے۔ چار پانچ سیڑھیاں چڑھ کربرآمدے سے گزرے‘ ایک بڑا شیشے کا دروازہ خودبخود کھل گیا۔ آگے گئے تو ایک خاتون بیٹھی تھی۔ فلپائنی مسلمان معلوم ہوتی تھی۔ اس سے لائبریری ہال کا پوچھا تو اس نے سامنے کی طرف اشارہ کر دیا۔ سامنے والے حصے میں داخل ہوئے تو ایک وسیع ہال میں خود کو پایا۔ معلوماتی کائونٹر پر تین عرب خواتین موجود تھیں۔ میں نے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا تعارف پاکستان سے آئے سیاح کے طور پر کرایا۔ انہوں نے توجہ دی اور بتایا کہ ہم کسی دفتری کارروائی کے بنا لائبریری گھوم سکتے ہیں۔ سرمد خان نے کہا کہ اگر کوئی سٹاف ممبر ہمیں لائبری دکھا سکے تو بہت اچھا ہو۔ مستعد خاتون نے ایک 24,23 سال کے نوجوان کو بلایا۔ محمد الحمادی بہت معصوم اور محبت بھرا نوجوان تھا۔ اس نے بتایا کہ لائبریری میں لاکھوں کتابیں ہیں‘ ہرزبان کی کتابوں کا الگ حصہ تھا۔ بڑی تعداد میں کتابیں عربی زبان میں تھیں۔ پہلی بار اسلامی موضوعات کے علاوہ عربی کی اتنی ساری کتابیں دیکھیں۔ ہم سب چاہتے تھے کہ اردو کتابوں کا گوشہ دیکھیں‘ محمد سے کہا کہ اردو کتابیں کہاں ہیں۔ تھوڑا سا چل کر وہ ہمیں ایک گوشے میں لے گیا‘ وہاں اردو کی کتابیں تھیں۔ اکثر ایسی کتابیں جو پچاس یا ساٹھ سال پہلے شائع ہوئیں۔ میں نے پوچھا کہ لوگ اس گوشے میں پڑھنے آتے ہیں؟ محمد نے مسکرا کر کندھے اچکا دیئے۔ اس نے بتایا کہ شارجہ کے حکمران ڈاکٹر شیخ سلطان بن محمد القاسمی علمی و ادبی سرگرمیوں اور کتابوں سے محبت کرتے ہیں۔ لائبریری کی عمارت اور کتابوں کی تعداد دیکھ کر یہ سچ نظر آیا۔ دو منزلہ ہال کا درمیانی حصہ بہت بڑے گنبد سے مزین ہے۔ ہمارا گائیڈ محمد الحمادی لائبریری کے ایک کمرے میں لے گیا جہاں پروجیکٹر کی مدد سے کمرے کی تین دیواروں پر ’’جنگل بک‘‘ کارٹون دکھائے جاتے ہیں۔ کارٹون عربی میں ڈب ہیں۔ درمیان میں بچوں کی نشست کے لیے چھ سات کرسیاں اور چند بنچ پڑے ہیں۔ ٹیچر کھڑی ہو کر یہ کہانی سناتی ہے۔ یہاں سے نکلے تو بچوں کی لائبریری والے حصے میں چلے گئے۔ کیا خوبصورت اہتمام تھا۔ رنگ رنگ کے ریک‘ دیواروں پر تصاویر‘ ہزاروں کتابیں‘ ساتھ ایک چھوٹا سا کیفے۔ یہاں موجود خاتون بھی فلپائنی تھیں۔ انہوں نے ملحقہ ہال کمرے میں ہمیں لے جا کر تھری ڈی عینکیں پہنادیں۔ پھرسامنے دیوار پر نظام شمسی کی فلم چلنے لگی۔ یوں لگتا سیارے ہمارے دائیں بائیں سے گزر رہے ہیں۔ ماحولیات پر کچھ ڈاکومنٹری دیکھی۔ بہت اچھا لگا کہ بچوں کو لفظ کے ساتھ بصری اور سمعی ذرائع سے سکھانے کا سامان تھا۔ یہاں سے محمد ہمیں نابینا افراد کے لئے مختص گوشے میں لے گیا ۔ایک سکینر کے نیچے کتاب رکھی تو سکینر نے کتاب پڑھنا شروع کردی۔ یہاںایسے کمپیوٹر پڑے تھے جن پر کوئی لفظ ٹائپ کریں تو ساتھ آواز بتاتی ہے کہ آپ نے کیا لکھا۔ یہاں بریل کتابیں موجود تھیں۔ سارا انتظام مثالی تھا۔ ہم نے محمد سے معانقہ کیا۔ کچھ تصاویر بنائیں۔ کائونٹر والی خواتین کا شکریہ ادا کیا۔ پھر ہال کے باہر بیٹھی خاتون کو تھینک یو کہا تو وہ اردو میں بات کرنے لگی۔ یہاں بہت سے غیر ملکی اردو سمجھتے ہیں‘ کچھ بولنا بھی سیکھ جاتے ہیں حتیٰ کہ کئی مقامی باشندے اردو میں بات کرلیتے ہیں۔ اپارٹمنٹ پہنچے تو ابرار کافون آ گیا۔ اس نے رات سے کھانے کا کہہ رکھا تھا۔ طاہر علی بندیشہ کے ہمراہ سلی کون کے علاقے میں پہنچے۔ یہ جدید علاقہ ہے۔ آبادی کم ہے۔ شام کے چار ہو چکے تھے۔ ابرار اچھا کاروباری ہی نہیں بہت اچھا کک بھی ہے۔ کھانا اس کے ہاں کھایا۔ اس نے چھت پر سوئمنگ پول دکھایا۔ ہمیں چھ بجے دوبارہ شارجہ پہنچنا تھا جہاں شہزادہ عاکف اعجاز القرشی نے ڈنر کا اہتمام کر رکھا تھا۔ عاکف اعجاز کا خاندان سمبڑیال سے ہے۔ ان کے والد یو اے ای میں آئے۔ عاکف اعجاز خود انجینئر ہیں۔ اس سب سے بڑھ کر وہ ایک منفرد محقق ہیں۔ انہوں نے قریشی قوم کی تاریخ‘ اصل اور سماج میں ان کے مقام اور حیثیت کے متعلق پائی جانے والی غلط فہمیوں پر کام کیا ہے۔ یہ کام دراصل ان کے دادا مولانا ابوالبیان شہزادہ آزاد سمبڑیالوی القرشی کا ہے جس میں عاکف اعجاز اضافہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے انگریز دور کی سرکاری دستاویزات اور اس سے پہلے کے تاریخی ریکارڈ سے ثابت کیا ہے کہ مراثی کا مطلب حقیر قوم نہیں بلکہ لفظ مراثی عربی زبان کا ہے۔ انہوں نے مراثی قوم کے شجرے لکھے ہیں۔ان کی تحقیق قابل داد اور ہمارے سماج میں پائے جانے والے تصورات پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتی ہے ۔ خیر یہ ایک بھرپور کام ہے جو 580 صفحات کی کتاب ’’سلسلہ تاریخ القریش‘‘ کے نام سے محفوظ کیا گیا ہے۔ عاکف ہمیں جس ریسٹورنٹ پر لے گئے وہ غالباً لبنانی یا شامی تھا‘ کباب نہایت نرم۔ ساتھ لسی‘ عربی اچار‘ حمس اور باریک لیکن ڈیڑھ فٹ قطر کی روٹی۔ ہم بمشکل دو دو کباب کھا سکے۔ عاکف بتانے لگے کہ لوگ یہ والے آٹھ دس کباب کھا جاتے ہیں۔ ان کبابوں کی خاص بات یہ ہے کہ یہ شکم کو بوجھل نہیں کرتے۔ کھانے کے بعد دیر تک عاکف مقامی ثقافت‘ کھانوں اور کتابوں کی باتیں کرتے رہے۔ بہت دلچسپ آدمی ہیں۔ بہت سارے کباب بچ گئے تھے۔ عاکف نے پیک کروا دیئے کہ اپارٹمنٹ جا کر کھالیں۔ اگلا دن عملی طورپر میرا دبئی میں آخری دن تھا۔ کافی مصروف شیڈول تھا‘ اس لیے جاتے ہی سو گئے۔(جاری ہے)