جمعرات 11مئی کو دبئی میں پاکستان کے قونصل جنرل احسن افضل سے ملاقات طے تھی‘ شام کو محترمہ صائمہ نقوی نے عجمان میں ’’ارمغان لاہور‘‘ کی تقریب پذیرائی رکھی تھی‘ ہم 11بجے صبح قونصل خانے پہنچ گئے۔ وائس قونصل( پاسپورٹ) سلیم سلطان کو آگاہ کیا۔ چند لمحوں بعد قونصل جنرل حسن افضل خان بھی آ گئے۔ان سے دبئی میں پاکستانیوں کی حالت زار‘ مختلف جرائم میں قید پاکستانیوں کی مدد۔پاکستانی کمیونٹی کے بچوں کے لئے ناکافی سکول اور قونصل خانے کی خدمات پر گفتگو ہوئی۔بڑے نفیس اور مستعد ڈپلومیٹ ہیں۔مختصر بات کتنی گہری ہو سکتی ہے یہ سفارت کار سے بہتر کوئی بیان نہیں کر سکتا۔ باغبانی اور پھولوں سے ایک تعلق ہے۔برسوں سے اس کے کاروباری امکانات پر نظر ہے۔ میری ایک کتاب ’’پاکستان میں گلاب‘‘ اردو سائنس بورڈ نے شائع کی۔ حسن افضل صاحب کو بتایا کہ دبئی میں ہالینڈ‘ کینیا اور بھارت سے پھول آتے ہیں۔پاکستان سب سے قریب ہے۔ پاکستان میں حیدر آباد‘ پتوکی اور سگیاں لاہور پھولوں کی منڈیاں ہیں۔لوگ گلاب‘ گلیڈ‘ ٹیوب روز لگا رہے ہیں۔اگر ایئر پورٹوں پر کولڈ سٹوریج کی سہولت مل جائے اور کوئی سرمایہ کار اس شعبے میں پیسہ لگانے کو تیار ہو تو دبئی ابوظہبی‘ شارجہ‘ عجمان اور دیگر خلیجی ریاستوں کے علاوہ سعودی عرب کو بھی پھول برآمد کئے جا سکتے ہیں۔ایک دوست نے تو لاہور میں ایسے کٹ فلاور اگانے کا تجربہ کیا ہے جو 45درجہ سینٹی گریڈ میں سورج کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر پندرہ دن تک کھلے رہتے ہیں۔ حسن افضل خان نے مجھے ایک رپورٹ تیار کرنے کا کہا ہے تاکہ وہ متعلقہ حلقوں کی اس جانب توجہ دلا سکیں۔ قونصل جنرل سے ملاقات کے بعد ہمیں پریس قونصلر شازیہ سراج سے ملنا تھا۔شازیہ نے مقامی میڈیا سے تعلق کار اور یہاں موجود پاکستانی میڈیا کے متعلق مفید معلومات فراہم کیں۔تھوڑی دیر ٹریڈ و انوسٹمنٹ قونصلر عدیم خان سے ملے اور رخصت ہو لئے۔ہمارے پاس کچھ وقت تھا ، گاڑی سیف زون شارجہ کی جانب ہو لی۔ یہاں ہمیں فاسٹ ٹریک بزنس کنسلٹنٹ سروسز کے ایم ڈی محمد حسین خان صاحب سے ملنا تھا جو کے پی کے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حسین نے دبئی اور شارجہ میں کاروبار کے خواہاں سینکڑوں افراد کو مشاورتی خدمات فراہم کی ہیں۔ان کی کامیابی کی کہانی ہے، صائب مشوری دیتے ہیں ۔ سیف زون میں کئی کمپنیوں نے ایک ہی عمارت میں دفاتر بنا رکھے ہیں۔ان کو ایک ہی جگہ تمام سہولیات حاصل ہیں۔ یہاں سرمد نے عالیہ نور زمان سے ملایا۔ایم بی اے کرنے کے بعد انہوں نے اکاونٹس کی کئی ڈگریاں لے رکھی ہیں، عالیہ نور ٹرپل اے آڈٹ گروپ کی ایسوسی ایٹ پارٹنر ہیں۔ وہ یو اے ای ٹیکسیشن اور وی اے ٹی کی اسپیشلسٹ ہیں ، وہ اس پر لکھتی ہیں، کاروباری امور پر موٹیویشنل لیکچر دیتی ہیں اور آنلائین پرزینٹیشن دیتی ہیں۔ دبئی اور شارجہ میں ٹیکس، فنانس اور مینجمنٹ سسٹم کے متعلق مشاورت فراہم کرتی ہیں۔ اچھا لگا پاکستان کی بیٹیاں دنیا میں خود کو منوا رہی ہیں۔وہ تعلیم یافتہ پاکستانی خواتین کے لیے مشعل راہ ہیں ۔ یہاں سے نکلے تو سرمد خان نے طاہر علی بندیشہ کو گاڑی ایمریٹس پوسٹ کے ڈاک خانے کی جانب موڑنے کو کہا۔ہم ان کے ساتھ اندر گئے ، ایک جانب پوسٹ بکس بنے تھے یہ چوبیس گھنٹے کھلا رہتا ہے۔ ،سرمد نے ڈاک وصول کی اور باہر آ گئے۔ اب شام تک کوئی مصروفیت نہیں تھی۔ صائمہ نقوی پاکستانی سوشل سینٹر شارجہ میں ادبی تقریبات کی روح رواں ہیں۔گزشتہ سال اگست میں برادرم سید سلیم الدین نے ان سے تعارف کرایا تھا۔یوم آزادی کے مشاعرے میں ان کے توسط سے اپنا کلام پیش کیا۔نہایت پرخلوص خاتون ہیں۔چند روز قبل ’’ارمغان لاہور‘‘ ان کی خدمت میں پیش کر چکا تھا‘ صائمہ نقوی کا تعلق لاہور سے ہے۔ انہوں نے اپنی دوست مسز شزا ظفر کو اس بابت بتایا تو شزا نے شارجہ سینٹر کی بجائے عجمان میں اپنے گھر تقریب رکھنے کی خواہش ظاہر کی۔دبئی سے کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت ہو گی۔عجمان کے جس علاقے میں شزا ظفر اور برادرم ظفر اقبال کا ولا ہے وہ بحریہ ٹاون جیسا تھا ،ولاکافی بڑا تھا۔ہم گاڑی سے اترے تو خوش گوار حیرت ہوئی۔دائیں جانب گھر کے سامنے والے حصے میں شہتوت‘ بیر‘ نیم اور دوسرے درخت لگے تھے۔ اندازہ ہوا کہ مکین پاکستان سے محبت میں درخت بھی یہاں لے آئے ہیں۔رات کے ساڑھے آٹھ ہو چکے تھے‘ کوئی ستر پچہتر افراد کے لئے نشستیں تھیں۔ایک حصہ خواتین کے لئے مخصوص تھا۔دیوار کے ساتھ بوگن ویلیا اور دوسرے سخت جان پودے۔ یہاںکھلے میں لاوڈ سپیکر استعمال کرنے کی اجازت نہیں اس لئے ہمیں بلند آواز میں بات کرنا تھی۔ تلاوت قرآن کے بعد صائمہ نقوی نے ہم سب کا تعارف کرایا۔ انہوں نے ’’ارمغان لاہور‘‘ کے متعلق اپنی رائے پیش کی۔مقامی دوستوں میں سے میاں منیر ہانس، ان کی بیگم عائشہ اور بچے آئے تھے۔عائشہ سے کوئی چھبیس ستائیس سال بعد ملاقات ہوئی تھی۔میں نے پنجابی روایت کے مطابق سر پر ہاتھ رکھ کر پیار دیا۔میرا خیال تھا کہ کتاب سے کچھ اقتباسات پڑھوں گا‘ پھر سوچا یہ ایک روبوٹک سا عمل ہو جائے گا۔ سو کتاب ہاتھ میں رکھی اور لاہور کے تاریخی آثار‘ شخصیات اور احوال کے متعلق کہانی کی صورت میں گفتگو شروع کر دی۔ شرکا نے بھرپور محبت کا ثبوت دیا۔ایک خوبصورت جوڑے کاشف ملک اور مسز سطوت کاشف نے لاہور پر با ت کی ،ساتھ دل کھول کر پذیرائی بخشی‘ اسی طرح عجمان میں چائے شائے کے نام سے کیفے بزنس کرنے والی نور الصباح نے بہت اشتیاق ظاہر کیا۔نور الصباح نے اگلے دن اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔میں نے بتایا کہ کل مجھے واپس لاہور جانا ہے۔ وعدہ کیا کہ اگلی بار ضرور ان کے ہاں آوں گا۔ سرمد خان اور طاہر علی بندیشہ میری طرح حیران تھے کہ یہاں اس قدر بھرپور تقریب بھی ہو سکتی ہے۔اس کا کریڈٹ صائمہ نقوی اور شزا ظفر کو جاتا ہے۔دیگر حاضرین میں فخر الاسلام صدیقی‘ تانیہ فخر‘ جانب منزل کے چیف ایڈیٹر ارشد انجم اور ان کی مسز‘ شفیق الرحمان اور دیگر احباب شامل تھے۔شفیق الرحمان نے ان لمحوں کو تصویروں کی شکل میں محفوظ کر دیا۔سید سلیم الدین کی محبت کہ اس بار بھی کئی نئے احباب سے ملایا۔یہ ایک فیملی تقریب تھی۔ بچوں نے میرے ساتھ تصاویر بنوائیں۔ظفر بھائی اور شزا ظفر نے کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔گفتگو کا سلسلہ رات بارہ بجے تک جاری رہا۔ (جاری ہے )