اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمع کرائی گئی ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق لیبیا پر اقوام متحدہ کی اسلحے کی پابندی کے باوجود بلیک واٹر کے بانی ایرک پرنس نے وہاں برسرپیکار گروپوں کو اسلحہ فراہم کیا تھا۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اعتراض کرنے پر اس سکیورٹی فرم نے 2019 میں دو بار اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے طرابلس میں حکومت کے خلاف سرگرم جنگجو خلیفہ حفتر کی حمایت کے لیے کرائے کے فوجی اور ہتھیار بھیج کر لیبیا کے تنازعہ میں جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔ جب پاکستان اور امریکہ نے اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر عسکریت پسندوں کو تلاش کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا تو بلیک واٹر کو مبینہ طور پر 2006 میں پاکستانی شہر کراچی میں خفیہ امریکی جوائنٹ اسپیشل آپریشنز کمانڈ (JSOC) میں تعینات کیا گیا تھا۔ امریکی ہفت روزہ دی نیشن کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ بلیک واٹر سی آئی اے کے متوازی فوجی آپریشن کر رہا تھا۔ بلیک واٹر، جس کی بنیاد پرنس نے 1997 میں رکھی تھی، کو امریکی محکمہ خارجہ نے عراق جنگ کے دوران خوب استعمال کیا۔ بعد میں انہوں نے افغانستان اور پاکستان میں بھی امریکی آپریشنز میں حصہ لیا۔ بھارت نے 1980 کی دہائی کے آخر میں ریاست پنجاب میں سکھ عسکریت پسندی کو دبانے کے لیے نجی ملیشیا کے استعمال کا تجربہ کیا تھا، لیکن پھر بعد میں جموں و کشمیر میں اسکا خوب استعمال کیا۔ 2015 میں اس وقت کے وزیر دفاع منوہر پاریکر نے کہا تھا کہ ''دہشت گردوں کو صرف دہشت گرد ہی بے اثر کر سکتے ہیں۔‘‘ 1994میں کشمیر میں سب سے بڑی خبر ایک عسکری گروپ اخوان المسلین کا قیام تھا، جس کی قیادت ایک لوک گلوکار محمد یوسف پرے المعروف کوکہ پرے کر رہے تھے۔ اس گروپ نے وہ کر کے دکھایا جو بھارتی سکیورٹی اہلکار عسکریت شروع ہونے کے بعد پچھلے پانچ سالوں سے نہیں کر پا رہے تھے۔ طریقہ کار ہوتا تھا کہ فوج یا نیم فوجی دستے کسی گاؤں کو گھیرے میں لے کر راہداریاں بند کر دیتے تھے۔ وہ خود گاوں یا بستی میں داخل نہیں ہوتے تھے۔ بستی کے اندر اخوا ن کے بندوق برداروں کو گھروں کو لوٹنے، مارنے اور نشانہ بنانے کی کھلی چھوٹ ہوتی تھی۔ ان کا نشانہ زیادہ تر جماعت اسلامی سے وابستہ یا ہمدردی رکھنے والے خاندان یا عسکریت پسندوں کے قریبی یا دور کے رشتہ دار ہوتے تھے۔ خواتین کی ایسی بے حرمتی ہوتی تھی کہ ان کو بیان کرنے سے قلم کی سیاہی ہی خشک ہوجاتی ہے۔ ان کا کام ہی سوسائٹی میں ایسی دہشت پھیلانا تھا تاکہ عوام آزادی پسند تنظیموں یا عسکری تنظیموں کی حمایت کرنے سے گریز کریں۔ پرے کے ایک ساتھی رشید بلہ نے 1996 میں شمالی کشمیر کے گاؤں سدریکوٹ میں دو پورے خاندانوں کا صفایا کر دیا تھا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں پرے کے مقابلے فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کو ووٹ دئے تھے۔ فارق وزیر اعلیٰ کے عہدے پر چھ سال تک فائر رہے مگر ان سرکاری بندوق برداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکے۔ اس گروہ کے ایک اور کمانڈر سیٹھا گجرو عرف محمد امین وانی کے خلاف پولیس نے قتل کے 90 مقدمات درج کیے تھے۔ 2001 میں مقامی ہفتہ وار چٹان کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے 300 افراد کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ 2010میںراشٹرپتی بھون یعنی بھارتی صدر کے دفتر و رہائش گاہ کے اشوکا ہال میں ، میں سویلین پدما ایوارڈ کی تقریب کور کررہا تھا کہ ایک نام غلام محمد میر المعروف ممہ کنہ کا پکارا گیا۔ یاد آیا کہ ان کے ساتھ میری ایک یاد گار ملاقات غالبا 1996ء یا 1997ء میں ہوئی تھی۔ میں سوپور قصبہ سے سرینگر کی طرف بس میں رواں تھا۔ پروگرام تھا کہ سرینگر میں ایک رات قیام کے بعد اگلی صبح جموں اور پھر دہلی آکر ڈیوٹی جوائن کروں گا۔ تقریباً 30 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد سویلین کپڑوں میں ملبوس کچھ بندوق بردار ایک جگہ بسوں کو قطار میں کھڑا کر کے سواریوںکو نیچے اترنے کا حکم دے رہے تھے۔ معلوم ہو ا کہ یہ ممہ کنہ کا اسکواڈ تھا، جو اخوان کا کمانڈر تھا۔ وہ خود بھی موقع پر موجود تھا۔ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی سرچ آپریشن ہے‘ مگر جب برلب سڑک ہمیں قطار میں آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا توایک بندوق بردار جامہ تلاشی کے نام پر سواریوں کے بٹوے اور پرس چھین کر پاس ہی دوسرے ساتھیوں کے حوالے کر رہا تھا۔ جب کسی نے ان پرسوں سے کچھ روپے واپس کرنے کی ذرا سی بھی درخواست کرتا تو اس کو یہ بندوقچی بری طرح جھڑکتے تھے۔سڑک سے متصل سیب کے ایک باغ میں دور مجھے چند وردی پوش فوجی ٹہلتے ہوئے نظر آئے۔ ان جنگجوئوں سے نظریں بچاکر میں ان فوجیوں کی طرف بڑھا، نزدیک پہنچ کر معلوم ہواکہ ایک فوجی افسرسیب کے ایک پیڑ کے سائے میں کرسی پر براجمان چائے نوش فرما رہے تھے اور یہ سپاہی ان کی گارڈ پر متعین تھے۔مجھے افسر کی طرف بڑھتے دیکھ کر سپاہی الرٹ ہوگئے۔ میں نے ہینڈزاپ ہوکر افسر سے ملنے کی خواہش ظاہر کی اور بتایا کہ میں دہلی میں مقیم ایک صحافی ہوں اور سوپور اپنے والدین سے ملنے آیا تھا۔میرا شناختی کارڈ وغیرہ دیکھنے کے بعد افسر نے اشارہ کرکے اپنی طرف بلایا۔ میں نے درخواست کی کہ میرے سب پیسے بٹوے میںہیں اور اب دہلی تک پہنچنے کیلئے زادراہ بھی نہیں ہے۔ اس لیے کچھ پیسے مجھے لوٹا دیے جائیں۔ افسر نے ایک سپاہی کو میرے ساتھ جاکر بٹوہ واپس کرنے کا حکم دیا۔ جب میں سپاہی کی معیت میں دوبارہ سڑک پر پہنچا، تو ممہ کنہ کی سربراہی میں سویلین بندوق برداروں کی خشم آلود نگاہیںمیرا طواف کر رہی تھیں۔ ان میں سے ایک نے لقمہ بھی دیا، ''دیکھتے ہیں‘ کیسے بچ کے جاتا ہے‘‘۔سپاہی کی معیت میں مجھے ایک شیڈ کے اندر لے جایا گیا۔ جہاں مائونٹ ایورسٹ جتنا بلند بٹووں اور پرسوں کا ایک پہاڑ کھڑا تھا۔یہ شاید ان کا دن بھر کا مالِ غنیمت تھا۔ اس پہاڑ میں مجھے اپنا پرس ڈھونڈنے کا حکم دیا گیا، جو ظاہر ہے ناممکن تھا۔اسی دوران سپاہی نے ہی ایک بٹوے پر ہاتھ مارکر اس میں سے کچھ روپے نکال کر میری جیب میں رکھ دیے اور مجھے نو دو گیارہ ہونے کیلئے کہا۔میں نے بس کی طرف دوڑ لگائی‘ مگر یہاں ایک اور کہانی میری منتظر تھی۔ میری جراٗت کی تعریف کرنے کے بجائے سبھی سواریاں اور ڈرائیور مجھ پر برس پڑے کہ میں نے ان اخوانیوں کی شکایت فوجی افسر سے کیوں کی۔ اب بقول ان کے پوری بس کی سکیورٹی دائو پر لگ گئی ہے۔ آگے ان کے ساتھی بے عزتی کا بدلہ لینے کیلئے منتظر ہوں گے۔ قصہ مختصر، سبھی سواریوں نے متفقہ فیصلہ صادر کیا کہ میں اب ان کی سلامتی کیلئے خطرہ ہوں، اس لیے مجھے اپنے ساز و سامان سمیت سری نگر کے نواح سے کافی دور بس سے اتار دیا گیا جہاں ایک دو گھنٹے کے انتظار کے بعد ایک ٹرک والے نے رحم کھا کر مجھے سرینگر پہنچادیا۔ ستم ظریفی تھی کہ میں اسی کمانڈر ممہ کنہ کو بھارت کے اعلیٰ سویلین اعزاز پدم شری سے سرفراز ہوتے ہوئے دیکھ کر خون کے آنسو پی کر اس واقعہ کو یاد کر رہا تھا۔ گو کہ اب اخوانوں کا دور ختم ہو چکا ہے، ان میں سے بیشتر کیفر کردار کو پہنچ گئے ہیں۔ مگر اب بھارت نے جموں و کشمیر کے پہاڑی اضلاع میں ویلج ڈیفنس کمیٹیوں (VDCs) کی شکل میں ایک اور فورس تشکیل دی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اضلاع، جو جموں ڈویژن کا حصہ ہیں، مخلوط آبادی والے ہیں، مگر ہتھیار صرف ہندو دیہاتیوں کو فراہم کیے گئے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں سے لیس ہندو آبادی مقامی مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرتی ہے اور بہت سے وی ڈی سی ان سے بندوق کی نوک پر رقم وصول کرتے ہیں۔ان دور دراز علاقوں میں شکایت کریں بھی تو کس سے کریں گے۔ اسی طرح وسطی بھارت میں حکومت نے ماو نواز شورش کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک تنظیم سلوا جدوم قائم کرکے اس تجربے کو دہرایا۔ مقامی قبائلیوں پر مشتمل ملیشیا کو چھتیس گڑھ کی ریاستی حکومت نے مدد اور تربیت دی تھی۔ تنظیم نے دیہاتیوں اور قبائلیوں کو کنسنٹریشن کیمپوں میں رکھا جہاں انسانی حقوق کی انتہائی خلاف ورزیاں ہو رہی تھیں۔ اس گروپ کے خلاف ایک مقدمہ میں الزام لگایا گیا کہ اس نے 600 سے زیادہ دیہات کو جلا کر راکھ کردیا اور 300,000 لوگوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا۔ 2011 میں، سپریم کورٹ نے اس فورس پر پابندی لگا دی اور تنبیہ کی کہ سکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور عسکریت پسندی کے خلاف لڑائی کسی نجی گروپ کو آؤٹ سورس نہیں کی جا سکتی ہے۔ روس کے واگنر گروپ کے سربراہ یوگینی پریگوزین کی بغاوت بتاتی ہے کہ سکیورٹی کا نظام کتنا حساس ہوتا ہے اور اس کو واقعی آوٹ سورس نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہتھیاروں سے لیس یہ سویلین دھڑے جلد ہی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔احتساب سے مبرا، ان سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔ جس کے گواہ افریقہ میں مالی سے لیکر عراق،شام و کشمیر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جو حکومتیں شورش یا عوامی تحریکوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ان ملیشیاؤں کا استعمال کرتی ہیں، ان کو جا ن لینا چاہئے کہ وہ ایسے عفریت پیدا کر تی ہیں جو کسی نہ کسی وقت ان کو ہی نگل سکتے ہیں۔ حکومتوں کو واگنر کے واقعہ سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔