مدینہ کی تاریخ سے چھن چھن کر آتی خیالات کی رَو ذرامدھم ہوئی تو چاروں جانب بچھے جغرافیے پہ توجہ دی اور انتظامیہ کی جانب سے دی گئی ہدایت کے مطابق ہم شھدالمدینہ ہوٹل سے ساز و سامان سمیٹ کر، مسجدِ نبوی میں اس دورے کی آخری نماز (نمازِ ظہر جو بارہ بج کر بیس منٹ پر شروع ہوئی) ادا کر کے حسبِ عادت سب سے پہلے اپنی مقررہ بس میں آن موجود ہوئے۔ سرزمینِ مدینہ پہ پنجوں کے بل کھڑی، اس جمبو بس کی ہیئت یا حیثیت بلند و بالا ہوٹلوں کے درمیان ایک کھلونے سے زیادہ نہیں لگ رہی تھی ۔ آج کا ظہرانہ چونکہ ہوٹل والوں کے ساتھ طے نہیں تھا،اس لیے ہمیں بس میں بیٹھتے ہی البیک کا لنچ پیک فراہم کر دیا گیا۔مصفّا پانی اور مدینہ کی لذیذ کھجوریں سویٹ ڈش کے طور پر ہمارے آس پاس ہر وقت موجود ہوتی تھیں۔بس ایسی جدید تھی کہ جس میں مائیک،ایل ای ڈی،فون چارجنگ کے ساتھ واش روم کی سہولت بھی موجود تھی۔اسی بس میں بیٹھے بقیہ سواریوں کا انتظار تھا،صورتِ حال وہی شاعر والی تھی : خالی بس وچ آ بیٹھے آں البیک دا چسکا لا بیٹھے آں کئی وار کھجوراں کھا بیٹھے آں سوچی پئے آں ہُن کیہ کریے ایک بج کر چونتیس منٹ پر بس مدینہ سے مسجد ذوالحلیفہ کے لیے روانہ ہوئی، خوبصورت شاہراہوں کو آنکتے، آسمان سے باتیں کرتی عمارات کو جھانکتے، میدانِ اُحد کو پھلانگتے، چند منٹوں میں مقررہ مسجد جا پہنچے، جہاں نوافل وغیرہ ادا کرنے ، فراہم کیے گئے بغیر خوشبو والے منی صابن سے غسل کرنے اور لاہور سے سمان میں رکھا چِٹا کھبور احرام باندھنے کے بعد، عمرہ کی نیت کرتے اور لبیک اللھم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک ، ان الحمد و النعمۃ لک والملک، لا شریک لک۔ کا وِرد کرتے ہوئے عظیم مکہ کی جانب روانہ ہوئے۔ مذکورہ قافلے کی سواریوں کی گنتی یا ترتیب کچھ ایسی تھی کہ سعودیہ میں بس کا سفر بالعموم مَیں نے دو والی سیٹ پہ اکیلے بیٹھ کے کیا لیکن یہاں سے میرے ساتھ والی سیٹ پہ خلافِ توقع اور خلافِ معمول جٹکے انداز میں احرام باندھے ایک سادہ اسلوب بزرگ اچانک آن براجمان ہوئے تو سُنجیوں گلیوں میں پھرنے والے مرزا یار کو کچھ تردد لاحق ہوا۔ تنہائی اور یکتائی میں مُخل ہونے سے زیادہ روایتی بزرگوں والے طرزِ عمل اور گمانِ گفتگو کہ اب چھوٹا ہونے کے ناطے مجھے کئی گھنٹوں تک ہوں ہاں کی خوراک پہ گزارا کرنا پڑے گا۔ اسی تأسف و تفکر میں کچھ دیر تو اجنبیت کی فضا طاری رہی۔ ہم نے کہیں پڑھ رکھا تھا کہ عربی میں دوستی یا تعلق کے بارہ درجے ہوتے ہیں: 1۔ زمیل: ایسا شخص جس سے آپ صرف ایک آدھ ملاقات کی حد تک واقف ہوں۔ 2۔ جلیس: ایسا شخص جس کے ساتھ آپ کچھ وقت بغیر کسی پریشانی کے گزار سکیں۔ 3۔ سمیر: ایسا شخص جس کے ساتھ ہر طرح کی بات چیت کرنے میں آپ کو کسی قسم کی دقت نہ ہو، یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں سے معاملات سنجیدگی اور اپنائیت کے دائرے میں داخل ہونا شروع ہوتے ہیں۔ 4۔ ندیم: ایسا شخص جو آپ کا ہم پیالہ، ہم نوالہ ہو اور جسے آپ فرصت کے لمحات میں یاد بلکہ جدید زبان میںمِس کرتے ہوں، بقولِ غالب: تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم! میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے 5۔ صاحب: ایسا شخص جو آپ کی خیریت کے لیے فکر مند ہو، یہاں سے تعلقات کا سلسلہ حقیقی دوستی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ 6۔ رفیق: ایسا شخص جس پر آپ انحصار کر سکیں اور جس کے ساتھ آپ اپنا فارغ وقت یا تعطیلات بھی گزارنا پسند کریں۔ 7۔ صدیق: ایک سچا اور قابلِ اعتماد دوست جو آپ سے کسی مطلب برآری کے لیے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کے تعلق کی نوعیت بے لوث اور اخلاص پر مبنی ہوتی ہے۔ 8۔ خلیل:ایسا قریبی دوست، جس کی موجودگی اور صحبت آپ کو نہال کر دے۔ 9۔ انیس:ایسا شخص جی کی قربت میں آپ باقاعدہ راحت محسوس کریں بلکہ اس کی کمی کو دور کرنے کے لیے محافل کا بندوبست بھی کریں۔ 10۔ نجی:ایسا شخص جو حد درجہ قابلِ اعتماد اور قابلِ بھروسا ہو اور جس پر آپ اپنی ذات سے بھی زیادہ اعتبار کر سکیں۔ 11۔ صفی:ایسا شخص جسے آپ نہ صرف اپنا بہترین دوست قرار دیتے ہوں بلکہ اسے دیگر دوستوں پر فوقیت دیتے ہوں۔ 12۔ قرین: ایسا شخص جسے آپ اپنے سے الگ نہ تصور کرتے ہوںاور جو آپ کا مکمل مزاج آشنا ہو۔ جس کی سوچ، خیال اور عمل ’مَیں نے یہ جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘ کے درجے پر فائز ہو۔ لیکن یہاں تو سراسر ’سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا‘ والی صورتِ حال درپیش تھی۔ اجنبیت کے ساتھ ساتھ عمروں کا بھی فرق تھا ۔ اس لیے کچھ وقت تو خاموشی یا لا تعلقی کی کیفیت میں گزرا لیکن آپ جانتے ہیں کہ دو پنجابی آخر کب تک خاموشی کی نگری میں بسیرا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ جیسے ہی تعارف کے مرحلے نے گفتگو کی دہلیز پار کی تو بات ’عجیب مانوس اجنبی تھا، مجھے تو حیران کر گیا وہ‘ کے علاقے میں داخل ہو چکی تھی۔ آپ کو بتاتا چلوں کہ میرے شانہ بشانہ بیٹھا یہ کھایا ہنڈایا، عقابِ سال خوردہ شخص سرگودھا کے چک 82 جنوبی کا دو مربع زمین کا مالک، پڑھا لکھا کسان عبدالرزاق وڑائچ تھا، جس نے اچھا خاصا زمیندارا کرتے کرتے ملک کے ابتر حالات، بد کردار اشرافیہ کی لُوٹ مار، نا انصافی، بے یقینی اور شریکا برادری کی چیرہ دستیوں سے دل برداشتہ ہو کر، اچھا خاصا زمیندارا ترک کر کے، بچوں کے حال اور مستقبل کو تحفظ دینے کے کے لیے کسی محفوظ ملک میں سیٹل کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ سات سال سے وہ خود بھی بیٹوں کے پاس کینیڈا میں مقیم تھے اور اب وہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ کینیڈا سے حج کرنے کے لیے لاہور سے ہمارے حج قافلے میں شامل ہوئے تھے ۔جب گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو جلد ہی محسوس ہو گیا کہ اس سیدھے سادے نظر آنے والے بابا جی کی باتیں تو آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ کنوؤں کے شہر کے پروردہ یہ بزرگ جدید زراعت کے کامل رموز سے واقف تھے۔ مَیں نے تعارف کی خشتِ اول رکھتے ہوئے کینیڈا کی بابت دریافت کیا تو اپنے بے ساختہ جٹکے انداز میں کہنے لگے: ہم خواہ مخواہ اسلام اور مساوات، جمہوریت کے مامے چاچے بنے ہوئے ہیں، ہم سے زیادہ بری طبقہ بندی، ذات پات، مشرکانہ رسوم، بدنظمی اور بے اصولی تو مکہ کے کافروں میں بھی نہیں تھیں۔ آج بھی کینیڈا کی عیسائی حکومت نے جو جو سہولتیں ہم غیر ملکیوں یعنی مسلمانوں اور سکھوں کو دے رکھی ہیں، ہم تو اپنے ملک میں ان کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ہمارے تعصب کا تو یہ عالم ہے کہ ہم اپنے ملک میں غیر مسلموں کے برتن بھی الگ رکھتے ہیں۔ انھیں رذیل کاموں کے لیے وقف کر رکھا ہے حالانکہ ہمارا دین اہلِ کتاب کیساتھ کھانے پینے بلکہ شادیوں کی بھی اجازت دیتا ہے۔ ہم نے وطنِ عزیز میں عمران خان کا متبادل تلاش کرنے کا ذکر کیا تو ہنس کے بولے، ساڈے وڈے آکھدے سَن: مَج ویچ کے گھوڑی لئی دُدھ پِینوں گیا تے لِد سَٹنی پئی