افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی نئی صورت گری میں امکانات کیا ہیں اور خدشات کتنے ہیں؟ یہ وہ اہم اور بنیادی سوال ہے جو ملک کی پارلیمان میں نہ سہی تو کسی پارلیمانی کمیٹی میں پوری معنویت کے ساتھ زیر بحث آنا چاہیے تھا لیکن افسوس یہ کہ اب پارلیمان میں ہونے و الی گفتگو بھی اتنی ہی سطحی اور غیر معیاری ہو چکی ہے جتنی کسی ٹاک شو یا کسی جلسہ عام میں ہونے والی گفتگو۔نتیجہ یہ نکلا ہے کہ فکری افلاس شدید سے شدید تر ہوتاجا رہاہے۔ خطے پر نظر رکھنے والے بین الاقوامی ماہرین کا خیال البتہ یہ ہے کہ دو معاملات ایسے ہیں جن پر پاکستان کو افغانستان کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر بات کرنا چاہیے۔پہلا مسئلہ پانی کا ہے اور دوسرا مسئلہ دہشت گردی کا ہے۔ ماضی میں جو ہواوہ ہمارے سامنے ہے۔ امریکی کٹھ پتلی حکومت کے دور میں بھارتی اثرو رسوخ میں ان دونوں معاملات میں پاکستان کے لیے پریشانی پیدا کی جاتی رہی۔ بھارت نے خود تو پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کی ہی ہے، اس نے افغانستان کے ذریعے بھی یہی کام کیا ۔ بھارتی سرمایہ کاری اور انجنیئروں کی مدد سے چہار آسیاب میں دریائے کابل پر شاہ توت ڈیم بظاہر تو کابل وغیرہ کے لیے پانی کی فراہمی کا پراجیکٹ تھا لیکن اصل میں یہ پراجیکٹ پاکستان کے خلاف آبی جارحیت تھی۔ دریائے کابل پر صرف کابل کا انحصار نہیں ہے۔ یہ دریا اٹک کے مقام پر دریائے سندھ میں گرتا ہے۔ یہاں پہنچنے سے پہلے یہ پشاور کی پانی کی ضرورت پوری کرتا ہے اور پوری وادی پشاور اور وادی نوشہرہ کی زراعت کا انحصار اسی پر ہے۔ وارسک ڈیم بھی اسی دریا پر بنا ہے۔ بھارت یہاں ڈیم بنا کر وادی پشاور اور وادی نوشہرہ کی زراعت تباہ کرنا چاہتا تھا۔ دریائے کابل کے پی کے میں تین اضلاع کو سیراب کر رہا ہے۔ اس کا پانی فروری سے اکتوبر تک یعنی نو ماہ دستیاب ہوتا ہے۔ یہ دریا کے پی کے کی زراعت کے لیے کتنااہم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ پشاور کی کل قابل کاشت زرعی اراضی کا 80 فیصد اسی دریائے کابل سے سیراب ہوتا ہے۔ نوشہرہ کی 60 فیصد زرعی زمین کو یہ دریا سیراب کر رہا ہے اور چار سدہ کی انتہائی زرخیز زرعی زمین کا85 فیصد انحصار اسی دریا پر ہے۔ اسی دریا کے اوپر پاکستان نے وارسک ڈیم بنا رکھا ہے۔ اب اگر اس دریا پر بارہ ڈیم بنا لیے جاتے ہیں اور ان میں بھاری مقدار میں پانی ذخیرہ کر لیا جاتاہے تو ذرا سوچیے پاکستان کا کیا حشر ہو جائے گا؟اس لیے یہ ضروری ہے کہ افغانستان کی موجودہ حکومت کے ساتھ پانی کا کوئی معاہدہ کیا جائے۔ پاکستان ایک مستطیل میں پھیلا ہے جس کی لمبائی زیادہ مگر چوڑائی کم ہے۔ جنوبی کونے میں سر کریک کے ڈیلٹا سے لے کر شمالی کونے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر تک بھارت بیٹھا ہے، جس کے ساتھ پاکستان کی سرحد قریب 2912 کلومیٹر ہے۔ دوسری جانب رباط جعلی سے لے کر واخان تک افغانستان ہے جس کے ساتھ پاکستان کی سرحد 2640 کلومیٹر طویل ہے۔ اب اگر بھارت کے ساتھ ساتھ افغانستان بھی دشمن ہو جائے تو پاکستان ان دونوں کے بیچ میں سینڈوچ بن جائے جس کے مشرق میں تین ہزار کلومیٹر طویل سرحد پر بھی دشمن ہو اور مغرب میں ڈھائی ہزار کلومیٹر سرحد پر بھی دشمن بیٹھا ہو۔ اس ’سٹریٹیجک سینڈ وچ‘ بننے سے بچنے کے لیے پاکستان ایک دوست افغانستان چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ وہاں بھارت نواز حکومت نہیں بلکہ پاکستان دوست حکومت ہو۔ اسی لیے پاکستان نے اففغانستان کی نئی یعنی موجودہ حکومت کو خوش آمدید کہا۔ دفاع کا یہ تصور افغان حکومتوں کی وجہ سے پیدا ہوا جنہوں نے پہلے دن سے پاکستان کی مخالفت کی۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ پاکستان میں مسلح تحریکیں چلانے کی کوشش کی۔ ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ پاکستان کا افغانستان کے ایک انچ پر بھی کوئی دعویٰ نہیں، نہ تھا، نہ ہے۔ یہ افغان حکومتیں تھیں جو روز اول سے بھارت کی پراکسی کے طور پر پاکستان کے وجود کو چیلنج کر رہی تھیں۔ پشتونستان تحریک افغانستان سے چلائی گئی، پشتون زلمی کے نام سے مسلح گروہ افغان حکومت کی سرپرستی میں کھڑا کیا گیا۔ یعنی پاکستان کو پہلے دن سے ’سٹریٹجک سینڈ وچ‘ بنانے کی کوشش کی گئی۔ یہی وہ خطرہ تھا جس کا اظہار پاکستان کے پہلے کمانڈر ان چیف جنرل گریسی نے قائد اعظم سے کیا تھا کہ پاکستان کی بعض سیاسی قوتیں مغرب میں شورش پیدا کر سکتی ہیں۔ پاکستان کو ’سٹریٹجک سینڈ وچ‘ بنانے کی پالیسی آج بھی بھارت کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ہے۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کی تو ایک طویل سرحد ہے، بھارت کا کیا ہے؟ وہ افغانستان کے معاملات میں اتنا دخیل کیوں رہا ہے؟امریکہ جب افغانستان میں تھا تو حالات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ افغان سرحد کے ساتھ پاکستان کو اپنی قریباً تین سٹرائکنگ کورز لگانا پڑیں۔ اب افغانستان میں نئی حکومت ہے جس سے پاکستان کے اچھے تعلقات ہیں۔ پاکستان دنیا میں ان کا مقدمہ بھی پیش کر رہا ہے۔ ایسے میں ٹی ٹی پی کا مسئلہ افغان قیادت کے ساتھ حتمی طور پر حل کرنا چاہیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خدشات بڑھتے جائیں گے کہ کہیں افغان قیادت ٹی ٹی پی کو اپنا ’ اثاثہ‘ تو نہیں سمجھتی کہ اس کے ذریعے پاکستان پر دبائو رکھا جائے اور اس کے ذریعے بارگیننگ پاور کو بڑھایا جائے۔ یہ چیز ظاہر ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان عدم اعتماد کو فروغ دے گی جو ایک المیہ ہو گا۔ پاکستان کا معاملہ یہ ہے کہ اس وقت سی پیک سے جڑے معاشی امکانات کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے اور وہ کسی قسم کی دہشت گردی کے خطرے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی معاشی صورت حال ہر طرح کے استحکام کی متقاضی ہے تاکہ یہاں معیشت کی دنیا میں جو امکانات پیدا ہو رہے ہیں انہیں نقصان نہ پہنچے۔ایسے میں اگر افغان سرحد کی طرف سے مسائل پیدا ہوتے ہیں تو یہ دونوں ممالک کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں اور یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہو گی۔ دونوں ممالک ہی نہیں اس خطے کے مفادات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں اچھے تعلقات قائم رہیں اور دونوں ملک معیشت کی دنیا میں آ گے بڑھیں اور بہتری کی طرف گامزن ہوں۔ ادھر معاملہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندر بھی فالٹ لائنز موجود ہیں۔ نئی افغان حکومت اگر ٹی ٹی پی پر اس معاملے میں سختی کرتی ہے تو یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ اس کے کچھ لوگ ISKP دولۃ اسلامیہ ولایت خراسان کا حصہ نہ بن جائیں جو افغان حکومت کے لیے پریشان کن ہو گا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ خطے میں جو نئی معاشی صف بندی ہو رہی ہے اس میں پاکستان میں امن عامہ اب صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں رہا۔ چین جیسی قوت بھی نہیں چاہے گی کہ یہاں بد امنی ہو ۔ چین کے افغان حکومت کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں ۔ پاکستان کے تعلقات بھی اچھے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس پیچیدہ معاملے پر بات کی جائے اور اسے نتیجہ خیز بنایا جائے۔