پاکستان کی سیاست‘آڈیو اور ویڈیو سیاست بن کر رہ گئی ہے۔ اصولوں کی سیاست عنقا ہے۔کاروبار کے لئے سیاست اور سیاست کے لئے کاروبار ہی سیاسی جماعتوں کا وطیرہ ہے۔سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔چند طاقتور خاندان جو فیصلہ کرتے ہیں غلاموں اور کنیزوں کی فوج ظفر موج اس فیصلے کے دفاع میں زمین اور آسمان کے قلابے ملانے لگتی ہے۔اپنا ذہن استعمال کرنے یا سوال اٹھانے کا رواج قصہ پارینہ ہو چکا ۔جو سوال اٹھانے کی جرأت کرے وہ راندہ درگاہ قرار پاتا ہے۔سوال اٹھانے والے کم سے کم تر ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ان کے ذرائع معاش کا تعلق بھی سیاست سے جڑا ہوتا ہے ،سیاست پاکستان میں سب سے بڑا کاروبار بن چکی ہے۔سیاست کے ذریعے پیسہ کمایا جاتا ہے اور پھر اسی پیسے کے زور پر دوبارہ کامیابی حاصل کی جاتی ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی شکل میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا میدان سیاست میں داخل ہوا تھا اور روایتی سیاست کو ایک جھٹکا لگا تھا لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہمارے ستارے ہنوز گردش میں ہیں اور قدرت نے ابھی تک ہمارے گناہوں کو معاف نہیں کیا۔ساڑھے تین سال گزر چکے ہیں لیکن پی ٹی آئی کی حکومت عوام کو صرف نہ گھبرانے کا مشورہ دے رہی ہے اور ابھی تک کسی بھی میدان میں عوام کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ عمران خان نے احتساب کے نام پر ووٹ لئے تھے لیکن ان ساڑھے تین سال میں ایک سیاستدان کا بھی احتساب نہیں ہو سکا۔نہ کسی کو سزا ہوئی اور نہ قوم کا لوٹا ہوا پیسہ واپس آیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کی امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔کرپشن کے خلاف جنگ صرف میڈیا تک محدود ہے۔اخبارات میں خبریں چھپتی اور چند دن بعد فراموش کر دی جاتی ہیں۔وزیر اعظم نے آج بھی فرمایا ہے کہ پورا سسٹم کرپٹ ہے اور اسے درست کرنے میں وقت لگے گا۔کتنا وقت لگے گا یہ وہ بھی نہیں جانتے۔لیکن انہیں یقین کامل ہونا چاہیے کہ ان کے پاس لامحدود وقت نہیں ہے اور وہ اپنی مدت کے ساڑھے تین سال گزار چکے ہیں اور صرف ڈیڑھ سال باقی ہے۔اگر ان کی حکومت نے کارکردگی نہ دکھائی،تو ان کا دوبارہ اقتدار میں آنا مشکل ہو جائے گا اور ان کا احتساب کا خواب نہ صرف ادھورا رہ جائے گا بلکہ خود ان کی جماعت کا احتساب شروع ہو جائے گا۔انہیں اپنے مخالفین کو یہ کریڈٹ ضروری دینا چاہیے کہ یہ اپوزیشن میں ہونے کے باوجود بیورو کریسی انہی کی سنتی ہے اور باقی ادارے بھی انہی کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔انہیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ان کے طرز حکومت میں ایسی کیا خرابی ہے کہ نہ وہ بیورو کریسی کا اعتماد حاصل کر سکے ہیں اور نہ پولیس کا۔سسٹم کی اصلاحات کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں ہے۔پولیس اور عدلیہ کی اصلاحات کا مکمل ہونا تو دور کی بات ہے،ابھی تک اس نیک کام کا آغاز بھی نہیں ہو سکا۔کم از کم مجھے تو یاد نہیں پڑتا کہ وزیر اعظم نے کبھی عدلیہ کی اصلاحات کے موضوع پر کسی چیف جسٹس کو اعتماد میں لیا ہو۔پولیس کے تبادلے ہی ہمیشہ اخباروں کی زینت بنتے ہیں اور پولیس کے سینئر افسران سے کبھی بھی ان کے سسٹم کی اصلاح کے بارے میں تبادلہ خیال نہیں کیا گیا۔جس کام کو ساڑھے تین سال میں شروع ہی نہیں کیا جا سکا،اس کی ڈیڑھ سال میں تکمیل کی کیا توقع کی جائے۔ حکومت کو مریم نواز کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے آڈیو کی تصدیق کر دی ہے اور اب حکومت نے بھی وزارت اطلاعات کے ریکارڈ چیک کرنے شروع کر دیے ہیں کہ کس اخباری گروپ کو اربوں روپے کے اشتہارات دیے گئے اور کیوں دیے گئے ورنہ کیا حکومت کو پچھلے تین سال اس ریکارڈ تک رسائی حاصل نہیں تھی ۔ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کو ابھی تک یقین ہی نہیں آ رہا کہ وہ حکومت میں آ چکے ہیں اور حکومتی اداروں کا مکمل ریکارڈ ان کی دسترس میں ہے۔حکومتی وزیر اور مشیر اب بھی (ن) لیگ کو طعنے دے رہے ہیں کہ وہ ان ویڈیوز اور آڈیوز کو اپنے مقدمے کا حصہ کیوں نہیں بناتے۔کیا خود حکومت کو تو یہ توفیق نہیں ہو سکتی کہ وہ ان ویڈیوز اور آڈیوز کا فرانزک آڈٹ کسی قابل اعتماد ادارے سے کروائے اور حقائق عوام کے سامنے رکھے ۔درحقیقت یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ حقائق سے پردہ اٹھائے اور عوام کا اس ہیجان سے پیچھا چھڑوائے۔سب حکومتی ادارے حکومت کے ماتحت ہیں اور یہ اپنے اپنے کام کے ماہر ہیں۔کیا حکومت اتنی بے بس ہے کہ وہ ان آڈیوز اور ویڈیوز کے پیچھے چھپے ہاتھوں کا پتہ نہیں چلا سکتی۔اگر حکومت واقعی سمجھتی ہے کہ یہ جعلی ویڈیوز اور آڈیوز ہیں،تو حکومت کو وقت ضائع کرنے کی بجائے اس کی فوری تحقیقات کرنی چاہئیں۔ہماری فوج اور ہماری عدلیہ دشمن کے نشانے پر ہے اگر اس طرح کے پروپیگنڈہ کا بروقت مداوا نہ کیا گیا،تو اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سابق چیف جسٹس کے خلاف کردار کشی کی مہم جار ی ہے۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایک نہ ایک دن سب کو سابق ہو جانا ہے اگر آج کی عدلیہ خاموش رہی تو کل وہ بھی ایسی کردار کشی کا شکار ہو سکتے ہیں۔بہرحال احتساب سے بالاتر کوئی نہیں ہے ۔انصاف کا بول بالا کرنے کے لئے ایسی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ پہلے بھی تو ایک پارٹی کراچی میں عام آدمی کے نام پر اقتدار میں آئی تھی لیکن اس نے کراچی میں جس قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔گلی کوچے کی سیاست سے اٹھنے والے نام نہاد لیڈروں نے عام آدمی کا وہ حشر کیا کہ عوام نے مڈل کلاس لوگوں کو ووٹ دینے سے توبہ کر لی۔ اگر پی ٹی آئی کی حکومت بھی عوامی خدمت میں ناکام ہوئی تو پھر آئندہ کے لئے عام لوگوں کا اعتماد غیر روایتی سیاستدانوں پر سے بھی اٹھ جائے گا اور یہ روایتی سیاستدانوں کے لئے روز عید ہو گا۔موجودہ حکومت اگر نئے قوانین بنانے کی بجائے،اگر ملک کے موجودہ قوانین پر سختی سے عمل درآمد کا تہیہ کر لے تو کم از کم ملک میں روز مرہ کی بنیاد پر جو قتل و غارت گری اور ڈاکو راج کا سلسلہ جاری و ساری ہے، اس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔عام لوگوں کا خون تو ہمیشہ سے رزق خاک ہوتا رہا ہے لیکن اس حکومت کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ کوئی ہائی پروفائل کیس بھی اس حکومت کے دور میں منطقی نتیجے تک نہیں پہنچ سکا۔جس جس کیس کا بھی وزیر اعظم نے نوٹس لیا وہ تو لٹک گیا۔اگر ملک کا وزیر اعظم بھی ابھی تمام تر کوششوں کے باوجود لوگوں کو انصاف نہیں دلوا سکتا تو پھر عوام کے پاس واحد سہارا یہ ہے کہ وہ روز قیامت کا انتظار کریں اور روز محشر نہ صرف اپنے مجرم کا دامن پکڑیں بلکہ حکمرانوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کریں۔