شہباز شریف آج وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھارہے ہیں۔نواز شریف کی آمد ،8فروی کو الیکشن کے انعقاد اور ممکنہ الیکشن نتائج کے حوالے سے میرے کالمز پر شدید تنقید کی جاتی رہی کہ یہ تجزیہ نہیں آپ کی ذاتی خواہشات ہیں۔اکتوبر میں ’’ویلکم نواز شریف ــ‘‘کالم لکھا تو کسی ایک فرد نہیں بلکہ سینکڑوں نامی گرامی اینکرز،میڈیا ٹک ٹاکرز حتیٰ کہ بیوروکریٹس کی جانب سے کہا گیا میاں نواز شریف تو دور شہباز شریف بھی واپس پاکستان نہیں آ رہے ۔آئندہ دو سال الیکشن نہیں ہورہے ۔ اس تنقید اور افواہوں کے جواب میں دلائل اور حقائق کے ساتھ میں نے کالم لکھا کہ یہ تحریر سنبھال کر رکھ لیجئے گا کہ افواہوں کے باوجود الیکشن 8فروری کو ہورہے ہیں اور شریف برادران میں سے ہی کوئی ایک اگلا وزیر اعظم ہے۔ سوشل میڈیا پر من مرضی کے پلانٹڈ سروے اور جعلی الیکشن پول کروائے گئے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت 70فیصد سے زائد ہے ۔اس جعلی سروے کا پوسٹ مارٹم میں نے اپنے کالم میں تفصیل سے کیا تھا کہ ان سروے میں پاکستان کی 98%آبادی اور ساڑھے بارہ کروڑ ووٹرز کی رائے شامل نہیں۔پاکستان میں ایکس (ٹویٹر) صارفین کی تعداد 50 لاکھ سے بھی کم ہے،جو کہ پاکستان کی کل آبادی کا بامشکل 2%ہے۔اس لیے ٹویٹر پر ہونے والے سروے عوام کی حقیقی رائے کا اظہار ہرگز نہیں ہو سکتے۔ ’’مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ‘‘8فروری کے کالم میں پشین گوئی کی تھی کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن ، سندھ میں پیپلز پارٹی اور خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کے آزاد اراکین باآسانی دوتہائی اکثریت کے ساتھ اپنی حکومت بنا لیں گے جبکہ بلوچستان میں مسلم لیگ ن ، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام برابر سیٹیں حاصل کرسکتی ہیں اور وزارت اعلیٰ کا فیصلہ کچھ لو کچھ دو پر ہوگا۔ مریم نواز شریف پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہوں گی۔جبکہ سندھ کیلئے مراد علی شاہ ایک دفعہ پھر سے فیورٹ ہونگے۔آصف علی زرداری دوسری دفعہ صدر پاکستان جبکہ شہباز شریف وزیر اعظم پاکستان ہونگے۔شہباز شریف اپنی مفاہمانہ اور سب کو ساتھ لیکر چلنے والی پالیسی کے باعث باقی جماعتوں کو بھی حکومت سازی کا حصہ بنائیں گے۔اس لیے یہی لگ رہا ہے کہ شہباز شریف 200سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسری دفعہ وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائیں گے۔ سندھ سے پیپلز پارٹی لگ بھگ 40سیٹیں حاصل کرلے گی جبکہ پنجاب سے بامشکل پانچ سے سات سیٹوں پر کامیابی کے امکانات ہیں۔متحدہ قومی موومنٹ15 کے قریب سیٹیں لینے میں کامیاب ہوجائی گی اور امکان ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ حکومت میں شامل ہوگی۔استحکام پاکستان پارٹی کا بھی جھکائو ن لیگ کی طرف ہے۔یہی لگ رہا ہے کہ ’’شیر‘‘پاکستان کی سرداری کا تاج پہننے کیلئے تیار ہے۔نواز شریف وزارت عظمیٰ کا تاج شہباز شریف کے سر سجائیں گے۔ مریم نواز کے وزیر اعلیٰ اور شہباز شریف کے وزیر اعظم کی پشین گوئی پر سینئر صحافیوں، سنئیربیوروکریٹ کا کہنا تھا کہ آپ کا تجزیہ مکمل غلط اور الٹ ہے۔ پہلی بات ہے کہ نواز شریف خود وزیر اعظم ہونگے جبکہ شہباز شریف ، حمزہ شہبازاور ملک احمد خاں میں سے کوئی وزیر اعلیٰ پنجاب ہوسکتا ہے۔مریم نواز کو بڑا عوامی عہدہ نہیں لینے دیا جائے گا۔ مریم نواز کی سیاسی جدوجہد رنگ لائی اور مسلم لیگ ن کے صدرشہباز شریف نے سب سے پہلا اعلان ہی یہ کیا کہ مریم نواز شریف پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ ہونگی۔جب مریم نواز شریف حلف اٹھا رہی تھیں تو مجھے بزدار دور کا واقعہ یاد آگیا۔ میںن لیگ کے ایک دوست کے کام کے سلسلے میں وزیراعلیٰ ہائوس گیا تو بزدار کے دو انتہائی قریبی وفادار آفیسرز ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔مریم نواز کی عدالتی پیشیوں کے تناظر میں میرے ساتھ موجود دوست کوکہنے لگے کہ ’’آپکی لیڈر مریم نواز شریف ‘‘کو ہمارے سپاہی بھی دھکے مار رہے ہیں توبہ کرکے پی ٹی آئی میں آجائو۔اللہ کی کرنی دیکھیں کہ اب وہی افسران اپنی پوسٹنگ کیلئے اسی مریم نواز کے محتاج ہیں جس کی میمز بنا کر فیس بک پر شیئر کرتے تھے۔ میرے کالمز پر سب سے زیادہ تنقید پی ٹی آئی ،بزدار اور فرح گوگی کے حمائتی بیوروکریٹ کرتے تھے۔پیسے کی ڈور میں حقیقی دنیا سے دوربیوکریسی کے افسران کی سوچ اور نظر وہاں نہیں جاسکتی جہاں ہم دیکھ رہے ہوتے ہیں،ان سنی کو سن اور محسوس کررہے ہوتے ہیں۔ شہباز شریف نے پی ٹی آئی کی بچھائی بارودی سرنگوں کے باوجود آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کا معاہدہ کرکے ملک کو ڈیفالٹ کے خطرات سے نکالا۔پی ٹی آئی کی ناکام سفارتی پالیسیوں سے ناراض سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، بحرین اور چین کے ساتھ ناصرف تعلقات بحال کیے بلکہ ان کواربوں ڈالرز کی بڑی سرمایہ کاری کیلئے راضی کیا۔13جماعتی اتحاد کے چیلنجز کا سامنا کیابلکہ مشکل ترین حالات میں بھی وطن عزیز کو بحرانوں سے نکالنے میں کامیاب رہے۔مسائل سے اس طرح نمٹنے کی صلاحیت بلاشبہ شہباز شریف کا ہی کام تھا۔ مشرف اور جنرل باجوہ کی اقتدار کی اوپن آفرز کو ٹھکرا کر شہباز شریف نے اپنے بھائی نواز شریف کا ساتھ دیکر قید و بندکی اذیت کا باخوشی انتخاب کیا۔ بہادری اور وفاداری ہی وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد پروزیر اعظم پاکستان کیلئے نواز شریف کا انتخاب شہباز شریف بنے۔نواز شریف اور پورے پاکستان کو اس بات پر کامل یقین ہے کہ مشکل ترین حالات میں پاکستان کو بچانے والا شہباز شریف ہی پاکستان کی خوشحالی اور ترقی کا نیا دور لے کر آئے گا۔