وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان میں دوسرا زرعی انقلاب رونما ہونے جا رہا ہے ، 30 سے 40 ارب ڈالرز تک سرمایہ کاری کی توقع ہے، گرین اینشیٹو پروگرام سے زرعی معیشت ایک سے دو سال میں بحال ہوجائے گی۔ معیشت بحالی کی خبریں سنتے سنتے کان پک گئے ، بال سفید ہو گئے۔، اس دوران ہم نے دیکھا کہ ترقی تو ہوئی مگر وہ ترقی معکوس تھی۔ اسلام آباد کے جناح کنونشن سینٹر میں زراعت اور تحفظ خوراک سے متعلق قومی سیمینار میں وزیراعظم شہبازشریف نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ سیمینار میں وفاقی وزرا ،سندھ اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ بھی شریک ہوئے مگر یہ نگران سیٹ اپ ہے ، یہ منتخب وزرائے اعلیٰ نہیں ہیں، 44 لاکھ ایکڑ زمین کا بیشتر حصہ سندھ اور سرائیکی وسیب سے جا رہا ہے، 18 ویں ترمیم کے بعد مرکز کا عمل دخل ختم ہو چکا ہے، منتخب حکومتوں کے قیام تک گرین اینی شیٹو منصوبہ منصوبہ موخر ہونا چاہئے۔ زمینوں کی الاٹمنٹ کی خبر سنتے ہی وسیب کے لوگوں کی چھرکی نکل جاتی ہے کہ پہلے ہی وسیب کے لوگ زمینوں کی بندر بانٹ کے مسئلے پر زخموں سے چُور ہیں۔ وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے سیمینار میں زرعی ماہرین، اعلیٰ عسکری افسران اور ملک بھر سے کسان اور برطانیہ، اٹلی، اسپین، چین، بحرین، قطر، سعودی عرب کے سفارتکاروں اور سرمایہ کار بھی شریک ہوئے جبکہ ترکیہ اور دیگر ممالک سے سفارتکاراور سرمایہ کاروں نے بھی سیمینار میں شرکت کی۔ تقریب سے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھاکہ پاکستان اب مزید قرض لینے کا متحمل نہیں ہوسکتا، ہم کیسے ترلے منتوں سے قرض لے رہے ہیں، سیاسی استحکام نہ ہو تو باہر کی تو دور مقامی سرمایہ کاری بھی نہیں ہوتی، کوئی سرمایہ کار کسی ملک میں سرمایہ کاری سیاسی استحکام کے بغیر نہیں کرتا۔یہ بات صرف لطیفہ لگتی ہے کہ ہمیشہ سے کہا جا رہا ہے کہ ہم مزید قرضے نہیں لیں گے ، مزید قرضوں کے متحمل نہیں ہو سکتے مگر جو بھی حکمران آیا قرضوں کے کشکول کو اس نے نیچے نہیں آنے دیا۔ سچی بات یہ ہے خدارا !اب پاکستانی قوم کو معاف کرتے ہوئے زخموں پر نمک نہ پاشی سے پرہیز کیا جائے۔ وسیب بنیادی طور پر زرعی ریجن ہے ، خوشخبریاں اور بھاشن دینے والے تو بہت ہیں مگر دکھ سننے والا کوئی نہیں۔ سبز انقلاب اور آباد کاری کے نام پر وسیب کو خوشحالی کیا ملنی تھی وہ اپنی زمینوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ زمینوں کی بندر بانٹ میں وہ بھی شریک ہیں جو آج وسیب کے زمیندار اور جاگیردار کہلواتے ہیں۔ سبز انقلاب اور آباد کاری کے نام پر وسیب کے لوگ اس بناء پر خوفزدہ ہو جاتے ہیں کہ ماضی کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ زمینوں کی بندر بانٹ کا مقصد مقامی لوگوںسے زمینیں چھیننے کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ تاریخ پر غور کریں تو ہرحملہ آور نے غداری کرنے والوں کو نوازا اور تحفے میں دی جانے والی سب سے اہم چیز زمین تھی ۔ اگر ہم زیادہ دور نہ جائیں اور انگریز دور کو ہی سامنے رکھیں تو انگریزوں نے زمینیں اپنے وفاداروں کو دیں ۔ جو آج جاگیردار ، زمیندار اور آبادکار کہلواتے ہیں۔ بہتر ہو گا کہ وسیب کی زمینیں صرف وسیب کے لوگوں کو ہی دی جائیں۔یہ لوگ آباد کاری کے نام پر ہونے والی بے ضابطگیوں کے خلاف نصف صدی سے فریاد کناں ہیں ، تھل اور چولستان میں وسیب کے لوگوں کی تیسری نسل کورٹ کچہریوں کے دھکے کھا رہی ہے مگر ابھی تک ان کو حق نہیں ملا، حکومت کو اگر اقتدار کی رسہ کشی سے فرصت مل جائے تو آبادی کاری کے نتیجے میں متاثر ہونے والوں کی فریاد بھی سن لے ۔ آپ کسی بزرگ کے پاس چلے جائیں وہ آپ کو بتائے گا کہ آبادکاری ایک ایسا عمل ہے جس کا مقصد مقامی باشندوں کو ان کے اپنے ہی وطن میں اقلیت میں تبدیل کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔ آباد کاری ایک دیمک زدہ عمل ہے ، جو نہایت خاموشی اور سست روی سے چلتا رہتا ہے ، سلوپوائزنگ کی طرح پھیلتا یہ عمل بعض اوقات اتنا زیادہ سست ہوتا ہے کہ دہائیوں تک مقامی لوگوں کو خبر ہی نہیں ہو پاتی کہ ان کے ارد گرد کون سا جال بُنا جا چکا ہے ۔ آخر میں باردیگر عرض کروں گا کہ وسیب کی بات سنی جائے اوراسلام کے نام پر بھائی چارے اور پاکستان کے نام پر لوگوں کو انصاف دیا جائے تا کہ ہر علاقہ ترقی کرے۔ وسیب کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اس کے مسائل سنے جائیں اور ان کے مطالبات پر توجہ دی جائے جو مطالبات جائز ہیں انہیں پورا کیا جائے۔ تحریک انصاف نے وسیب کے مسائل کے حل اور صوبے کے قیام کے وعدے پر ہی ووٹ حاصل کئے تھے لیکن برسر اقتدار آنے کے بعد مسائل کے حل پر کوئی توجہ ہی نہیں دی گئی۔ زرعی پیداوار میں کپاس سرائیکی وسیب کی اہم فصل ہے دنیا کی بہترین کپاس یہاں پیدا ہوتی ہے لیکن حال یہ ہے کہ اس عالاقے میں کوئی انڈسٹری ہی نہیں ۔ سرائیکی علاقوں میں کپاس انڈسٹریوں کے قیام سے بیروز گاری کے مسائل پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے لیکن کسی حکومت نے آج تک اس طرف توجہ ہی نہیں د ی۔کپاس کی بہترین پیداوار اور افرای قوت سے فائدہ اٹھا کر اس علاقے میں ٹیکسٹائل فری زون قائم کئے جا سکتے ہیں ۔ وسیب کو لائیو سٹاک کا خطہ بھی کہا جاتا ہے لیکن علاقے میں ایک بھی و یٹرنری کالج یا یو نیورسٹی نہیں بلکہ یہاں جانوروں کے علاج کے لئے اعلیٰ معیار کا کوئی ہسپتال بھی نہیں ۔ دوسری طرف آبادی کے لحاظ سے انسانوں کے علاج کے لئے بھی ہسپتالوں کی تعدا بھی کم ہے ۔ پانی بھی یہاں کا بنیادی مسئلہ ہے ، ہر سال پانی کے حصول میں سینکڑوں لوگ صحرا میں زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں ۔ وسیب کے کئی عالقوں میں خواتین کو میلوں سفر کرنا پڑتا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے وسیب کے علاقوں پر توجہ دی جائے اور انہیں اپنی اول ترجیحات میں شامل کیا جائے۔ ٭٭٭٭٭