عیسویں سال کے کیلنڈر پہ مارچ اترنے ہی کو تھا، کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے بہاراں کی آمد پر ایسی با معنی تقریبات کے اہتمام و انعقاد کا اعلان کیا، جس کا بوجھ سرکاری خزانے اور غریب عوام کی جیب پر نہ پڑے۔ بہار تو ایک کیف اور کیفیت کا نام اور رنگ و خوشبو اور حسن و خوبی کا عنوان ہے،جس کے سَوتے آسودگی اور خوشحالی سے پھوٹتے ہیں۔ بلاشبہ کفایت شعاری اور خود انحصاری کے بغیر اس خطے میں وہ فصلِ گْل،جس کی تمنا احمد ندیم قاسمی نے اپنے ان اشعار میں کی تھی،ہر گز نہیں اتر سکتی:۔ خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پہ اترے وہ فصلِ گْل جسے اندیشہ زوال نہ ہو یہاں جو پھو ل کھلے وہ کھلا رہے صدیوں یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو بہر حال، جشنِ بہاراں کی یہ شاندار تقریبات جو قومی خزانے پہ ایک پائی کا بوجھ بھی نہیں بنیں گیں، کا آغاز و افتتاح گزشتہ روز داتا دربار میں محفلِ سماع سے ہوا، بر صغیر کی مذہبی ودینی ہی نہیں بلکہ تہذہبی اور ثقافتی زندگی میں بھی صوفیاء اوران کے مزارات و آستانے ہمیشہ فکر وفن کا مرکز اور راحت و آسودگی کا سرچشمہ رہے ہیں۔ اس خطے پہ جب بھی کرم کی برکھا اُتری اور محبتوں کا نزول ہوا تو اس میں ان صوفیاء کی تعلیمات و افکار، طرز زیست اور اسلوب حیات کا بڑا دخل تھا، جو کہ سراسر محبت، امن، بھائی چارے اور انسان دوستی سے عبارت تھیں۔ بین المسالک ہم آہنگی ہو یا بین المذاہب مکالمہ ۔۔۔ان دائر وں کو وسعت خواجہ نظام، امیر خسرو اور بابا فریدؒنے ہی دی ہے۔ جنہوں نے مذہب، مسلک اور رنگ و نسل کی تقسیم کو صرف خطبوں اور تقریروں میں نہیں بلکہ اپنے قول و فعل اور عمل کے زریعے اسلامی تعلیمات کی صحیح روح کے ساتھ یہ کہتے ہوئے سربلند کیا بلکہ دلوں میں اُتارا:۔ یہ پہلا سبق ہے کتاب ہْدیٰ کا کہ ہے ساری مخلوق کنبہ خدا کا وہی دوست ہے خالقِ دوسریٰ کا خلائق سے جس کو رشتہ ولایٰ کا یہی ہے عبادت یہی دین و ایمان کہ کام آئیں دنیا میں انساں کے انساں میرے قارئین کے لیے یہ امر شاید حیرت و استعجاب کا باعث ہو کہ ہماری ثقافتی زندگی میں بسنتی رنگ ( Colour Yellow )جس کو بہار کی علامت کے طور پر بہت نمایاں کیا جاتا ہے، در اصل یہ بسنتی رنگ ہی عالمِ ملکوت یا عالمِ ارواح کا کلر ہے، بات زرا نازک ہے تو حضرت خواجہ نظام الدین اولیائؒ کے ملفو ظات پر مبنی شہرہء آفاق کتاب فوائد الفواد کا حوالہ ثبت کرتاجاؤں، جس کو آپ کے مرید ِخاص امیر حسن علاسجزیؒ نے مرتب اور محکمہ اوقاف پنجاب اور ادارہء ثقافتِ اسلامیہ لاہور نے تقریباً نصف صدی قبل شائع کرنے کا اعزاز پایا، سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء فرماتے ہیں: " حالت سماع میں عالم ملکوت سے روحوں پر انوار نازل ہوتے ہیں، جب ان انوار کا اثر دل پر ظاہر ہوتا ہے ان کو احوال کہتے ہیں۔ ان احوال کا تعلق عالم جبروت سے ہے جن کا اثر دل پر ظاہر ہوتا ہے پھر پورے طور پر حرکت ظاہر ہوتی ہے۔ جس کو آثار کہتے ہیں اس کا تعلق عالمِ ملکوت سے۔" انسان کے لطیفہ قلب کی ماہیت بھی اسی عالم سے تعلق رکھتی ہے،حضرت نظام الدین اولیائؒ کے مرید خاص حضرت امیر خسروؒ کی التجا اور منقبت ہے، نصرت فتح علی خان نے اسے داتادربارکی محافل سماع میں کا مرتبہ گایا، اسے سنیں تو کہتے ہیں کہ:۔ مْوہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے نجامؒ تو ہے صاحب مْورا، محبوب الٰہی!! رنگ کی رنگائی تو جو مانگے میرا جو بن گروی رکھ لے نجامؒ موری چنیریا، پی کی پگڑیا دونوں بسنتی رنگ دے نجامؒ یہ بسنتی رنگ ( Colour Yellow) ہی تو عالم ملکوت یا عالم ارواح ہے، امیر خسرو کی یہ دعا روحانی رفعت کی التجاہے۔ یہ روحانی زندگی کی بسنت اور بہار ہے۔ یہ تبدیلی قلب اور انقلاب زندگی کا روحانی رنگ ہے۔ شاید اسی باعث مایوں کے روز دلہا اور دلہن کے دوپٹے اور پٹکے کا رنگ پیلا یا بسنتی ہوتا ہے۔ بسنت ایک راگ بھی توہے۔ ویسے یہ موسمی راگ ہے۔ فی الجملہ زندگی عقل و علم کا راستہ نہیں، سوزو عشق کی گزر گاہ بھی ہے، مگر عشق حقیقی تو ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتا ہے ان سے وابستگی کی وارفتگی، یاد اور خیال میں جس قدر وجدان اور مستی کی کیفیت اختیار کر لیں گے، عشق کا فروغ اپنی پڑتیں کھولتا چلا جائے گا۔ برعظیم پاک و ہند میں حضرت امیر خسروؒ نے سماع(قوالی) کوجس ضابطے اور رنگ میں ڈھالا، وہ آج بھی سلسلہ چشتیہ کے سماع کی اٹھان اور شان ہے۔ اکثر سماع کا آغاز ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوتا ہے۔ جیسے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:۔ من کنت مولا، فعلی مولا(مشکوٰۃ شریف) (جس کا میں مولااُس کا علیؓ بھی مولا ہے) اس حدیث کو حضرت امیر خسروؒ نے راگ صنم غنم میں ترتیب دیا ہے۔ اسی طرح سماع کا اختتام بھی " رنگ " کی الوداعیہ اور دعائیہ،منقبت سے ہوتا ہے، بلکہ اس میں سلسلہ چشتیہ کا شجرہ پاک، سماع اور رنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ داتادربار کے سالانہ عرس کی محافل سماع کارنگ، نصرت فتح علی خاں اور غلام فرید صابری جیسے صاحبان فن پڑھتے رھے۔ امیر خسروؒ کا یہ کلام بعض اوقات کھڑے ہو کر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ امیر خسروؒ کے ابتدائی کلمات ہی اس قدر جاذب ہیں کہ انہیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، دل دھڑک اٹھتا ہے، فرمایا:۔ رینی چڑھی رسول ﷺ کی جو رنگ مولاکے ہاتھ جن کا چولہ رنگ دیا، سو، دھن دھن انکے بھاگ آج رنگ ہے رہی، مارنگ ہے رہی---- یا پھر خسروؒ رین سہاگ کی، جو میں جاگی پی کے سنگ تن مورا، من پیا کا جو دونوں ایک ہی رنگ آج رنگ ہے، رہی مارنگ ہے رہی، مورے خواجہؒ کے گھر رنگ ہے ری مورے داتاؒ کے گھر رنگ ہے ری