حکومت نے جاتے جاتے غریب عوام پر بجلی کے بعد پٹرول بم بھی گرا دیا ہے۔ جس سے عوام کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں 20 روپے فی لیٹر اضافہ پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار احسان جتا رہے ہیں کہ ہم نے آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے سے اضافہ کم کیا ہے۔ کیا وزیر خزانہ کو معلوم نہیں کہ پٹرول میں اضافے کا مقصد تمام اشیائے ضرورت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ نیپرا نے بجلی کی قیمت میں 7.50 روپے فی یونٹ تک اضافے کی حکومتی درخواست منظور کرتے ہوئے، نوٹیفکیشن وفاقی حکومت کو بھجوادیا ہے۔ماہانہ 200 یونٹ تک پروٹیکڈ صارفین کیلئے بھی قیمت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 3 روپے سے ساڑھے7 روپے فی یونٹ تک اضافہ کیا گیا ہے ، حکام کے مطابق بجلی صارفین کو اگست کے بلوں میں ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کبھی غریبوں کی بستی کا دورہ کریں ، اس ماہ جو بل آئے ہیں ابھی وہ ادا نہیں ہوئے ،غریب کتنا پریشان ہے اور آنے والے بلوں کی جو ’’خوشخبریاں ‘‘ دی جا رہی ہیں اس سے لوگوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا کافی نہیں کہ یہ مہنگائی آئی ایم ایف کی وجہ سے ہے۔ ذرا وہ بیانات اٹھا کر دیکھیں کہ جب عمران خان کی حکومت تھی تو شہباز شریف اسمبلی اور دوسرے فورم پر مہنگائی اور آئی ایم ایف کے بارے کیا کہتے تھے؟ ظلم تو یہ ہے کہ عمران خان اپنے دور میں مہنگائی کا جواز نواز شریف حکومت کو قرار دیتا تھا مگر اس نے بھی اپنے دور حکومت میں غریبوں پر مہنگائی کے بم گرائے۔ اب غریب جائیں تو جائیں کہاں؟۔وزیر اعظم نے صنعت کاروں کے بیشتر مطالبات تسلیم کرتے ہوئے حکومت کی مدت پوری ہونے سے پہلے ری فنڈ جاری کرنے کا وعدہ کیا، صنعتکاروں کے سستی بجلی کے علاوہ دیگر مطالبات بھی پورے کرنے کی یقین دہانی کروا گئی۔صنعتی ترقی بھی ضروری ہے مگر غریب کو بچانا اس سے بڑھ کر ضروری ہے، اگر غریب مزدور زندہ ہوگا تو صنعتیں بھی چلیں گی اور ترقی کا پہیہ بھی چلتا نظر آئے گا، اگر غربت کے خاتمے کی بجائے غریب کو ختم کر دیا گیا تو اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں ہوگا۔ ’’ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات ‘‘ کے مصداق غریب بہت تنگ ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرے گا کہ بجلی کے ٹیرف میں اضافہ، زائد بلنگ نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، عوام پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور آئے روز کی لوڈشیڈنگ سے پریشان ہیں۔ شہری پہلے ہی پانی کی کمی کی وجہ سے پریشان ہیں، عوام کیلئے پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں، 90 فیصد بیماریاں آلودہ پانی سے جنم لے رہی ہیں۔ ایک تو بجلی مہنگی اوپر سے لوڈشیڈنگ کاعذاب الگ، لوڈشیدنگ خاص طور پر اس وقت کی جاتی ہے جب گھروں میں پانی کے آنے کا ٹائم ہوتاہے۔میں نے ایک حکومتی اہلکار کو کہا کہ پینے کے صاف پانی کی کمی کی وجہ سے لوگ جسمانی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ذہنی عوارض کا شکار بھی ہو رہے ہیں تو اس نے کہا کہ آپ کیسی بات کرتے ہیں ، آج کل تو بارشیں ہو رہی ہیں ، ہر طرف پانی ہی پانی ہے، میں نے کہا کہ جس بات کو آپ اپنے کریڈٹ کے طور پر پیش کر رہے ہیں یہی آپ کا ڈس کریڈٹ ہے کہ گٹر لائنیں بند ہیں اور معمولی بارش سے بھی پانی گھروں میں جمع رہتا ہے اور آلودہ پانی سے نت نئی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ ہمارے ملتان شہر میں مزدوروں کے سینکڑوں اڈے ہیں، دیہات سے آنیوالے مزدور علی الصبح 5سے 6 بجے تک اڈوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ غریب مزدور موٹر سائیکل پر آنے والے ہر شخص کا حسرت سے چہرہ دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ اگر موٹر سائیکل رُکتا ہے تو سب مزدور اس پر اس طرح لپکتے ہیں جیسے کوئی خیرات بانٹنے آیا ہو۔آج کل کرایہ بھی مہنگا ہے نجانے وہ دیہات سے شہر تک وہ کیسے پہنچتے ہیں ؟ ان کے ہاتھوں میں رومال میں روٹی بندھی ہوئی ہوتی ہے اور یہ بھی دیکھئے کہ اڈوں پر آئے ہوئے 90 فیصد لوگوں کو کام نہیں ملتا اور وہ پھر خالی ہاتھ واپس گھر لوٹ جاتے ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں ، وڈیروں اور مخدوموں نے کبھی اس پر غور کیا ہے کہ ان کے ساتھ کیا بیت رہی ہے، شہروں میں بھی سفید پوش طبقہ کا بہت برا حال ہے، جس سے ملاقات ہوتی ہے وہ مہنگائی کا رونا روتا ہے، ان میں اچھے خاصے ادیب، شاعر ، دانشور شامل ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ خصوصاً پرائیویٹ ملازمین کو تو مہنگائی نے کچل کر رکھ دیا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ضروریات زندگی کی اشیاء مہنگی بجلی اور گیس کی عدم دستیابی عوام سے جینے کا بنیادی حق چھین لیا گیا ہے، عوام بے چارے اپنی داستان غم کسے سنائیں، وہ کب تک حکومت کی طفل تسلیوں کو قبول کرتی رہے گی، ہمارے ملک میں غیروں کی مداخلت ملک و قوم کیلئے پریشانی کا باعث ہے، ہماری خود اعتمادی اور خود انحصاری دائو پر لگی ہوئی ہے،کرسی اور اقتدار کی جنگ لڑی جا رہی ہے، غریب کی کسی کو سوچ نہیں ہے، سرائیکی وسیب کے لوگ عرصہ دراز سے اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں ، صوبہ نہ ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مہنگائی سے متاثر سرائیکی وسیب کے لوگ ہوئے ہیں ۔ کم و بیش تین کروڑ وسیب کے لوگ ملک کے دیگر شہروں میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ۔ اگر سرائیکی صوبہ بن جاتا تو وسیب میں نئی ملازمتیں پیدا ہوتیں ، نئی صنعتیں لگائی جاتیں، انڈسٹریل زون بنتے ، موٹر ویز بنتیں اور ہر طرف خوشحالی ہوتی، آج بدحالی کے مناظر ہیں، ہر روز صبح اخبارات کے مطالعہ کے دوران غربت سے خودکشی کی خبریں پڑھتے ہیں،جب لوگوں کو روزگار دستیاب نہ ہو، گھر سے باہر نکلنے والوں کو یقین نہ ہوکہ وہ بخیریت واپس گھروں کو لوٹیں گے کے نہیں، وہ ان سب جھمیلوں اور طوفانوں کا سامنا کر کے واپس پہنچیں تو گھروں میں بچے بھوک اور بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے بلک رہے ہوں تو وہ سٹپٹا کر نہ رہ جائیں گے تو اور کیا کریں ۔