لاہور سے روزنامہ 92نیوز کی رپورٹ کے مطابق پنجاب اسمبلی نے صوبائی کابینہ کی منظوری کے بغیر ہی پراونشل اسمبلی آف پنجاب سیکرٹریٹ سروسز ایکٹ 2019ء منظور کر لیا۔ صورتحال یہ ہے کہ متذکرہ ایکٹ کو کابینہ کی منظوری کے بغیر پاس کرنا نہ صرف پنجاب گورنمنٹ آف بزنس 2011ء کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ آئین 1973ء کے آرٹیکل 87اور 88سے بھی متصادم ہے۔ طرہ یہ کہ گورنر پنجاب نے اس ایکٹ پر دستخط کر دیئے ہیں اور اس کا نوٹیفکیشن بھی ہو گیا ہے۔ یہ آخر پنجاب اسمبلی کو اتنی عجلت اور جلدی کیوں ہے؟ مراعات یافتہ ارکان اسمبلی اتنی عجلت ان معاملات کیوں نہیں دکھاتے جن میں غریب عوام کا مفاد ہوتا ہے۔ یہ لوگ جہاں اپنا مفاد دیکھتے ہیں آئین و قانون کی خلاف ورزی کر کے حاصل کر لیتے ہیں لیکن جہاں عوامی مفاد کے مسائل درپیش ہوں ایسے بل کو پاس کرتے مہینوں لگا دیتے ہیں۔ کیا ارکان اسمبلی بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تنخواہوں میں اضافے کے سوا مفاد عامہ کے لیے کونسا بل منظور کیا ہے؟ کیا یہ ملک اور اس کے وسائل صرف مفاداتی گروہوں،مراعات یافتہ طبقوں اور ارکان اسمبلی کے لیے ہی ہیں، جن کی جیبیں پہلے ہی بھری ہوئی اور خالی جیب غریبوں کے پاس نہ صحت کی سہولتیں ہیں نہ تعلیم کی۔ کروڑوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے،بارسوخ اور مراعات یافتہ طبقات، ارکان اسمبلی اور افسر شاہی کو چاہیے کہ وہ غریب عوام پر بھی توجہ دیں۔عوام کی خدمت اور صحیح نمائندگی کا تقاضہ ہے کہ عجلت ان کاموں میں کی جائے جن سے عوام کا مفاد وابستہ ہو تا کہ مسائل حل ہوں اور لوگ آسودہ حال ہو سکیں۔