مولاناہدایت الرحمن صاحب اور جناب آصف زرداری ، دونوں نے پنجاب کے ڈومیسائل پر گرہ لگائی ہے۔ سوال یہ ہے کہ صوبائیت اور قومیت پر مبنی اس بیانیے میں صرف نفرت ہی ہے یا دلیل کی قوت بھی تلاش کی جا سکتی ہے؟ مولانا ہدایت الرحمن صاحب کی تازہ ویڈیو دیکھ رہا ہوں اور جس طرح غیر ضروری طور پر وہ پنجاب کو ’ گھسن ‘ مار گئے ہیں اس سے مجھے اپنے گائوں کا تربوز فروش یاد آ رہا ہے ۔ رمضان کے دنوں میں شدید گرمی میں وہ آوازیں لگاتا تھا: جیہڑا بھنو لال اے۔ مولانا ہدایت الرحمن کے لیے میں پہلے دن سے آواز اٹھا رہا ہوں لیکن آج تسلی ہوئی کہ وہ بھی اندر سے لال ہی سے ہیں۔ مولانا نے اپنی گرفتاری اور ضمانت نہ ملنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ایک وجہ یہ بھی بیان کی کہ ان کے پاس عمران خاں کی طرح پنجاب کا ڈومیسائل نہیں ہے، اس لیے انہیں ضمانت نہیں مل رہی۔ان کے باقی الزامات کا جواب تو وہی دیں جن پر انہوں نے انگلی اٹھائی ہے لیکن مولانا کے ایک خیر خواہ اور مداح کی حیثیت سے میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس موقع پر پنجاب کو بیچ میں گھسیٹ لانے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ کون سا طرز سیاست ہے کہ جو اٹھتا ہے پنجاب کو لعن طعن شروع کر دیتا ہے۔ مولانا کے لے سب سے زیادہ آواز اسی پنجاب سے اٹھی۔ لیکن موقع ملنے پر مولانا بھی’ قوم پرست‘ نفرت کا ابلاغ کرنے لگ گئے۔ پنجاب نے ہر ایک کو خوش آمدید کہا۔ امر واقعہ مگر یہ ہے کہ پنجابی کو کسی صوبے میں خوش آمدید نہیں کہا جاتا۔ پنجاب کے سماج نے سب کو محبت دی لیکن جواب میں جو اٹھتا ہے پنجاب کو چماٹ رسید کر دیتا ہے۔ معلوم نہیں یہ نفسیاتی مسئلہ ہے یا پاپولزم کا آزار۔ عمران خاں کے ساتھ حسن سلوک کا احساس صرف مولانا ہدایت الرحمن کو نہیں،ہم جیسوں کو بھی ہے۔ اس نظام نے جس طرح عمران خاں کی بلائیں لی ہیں اور اس پر صدقے واری گیا ہے اس کی کوئی مثال معلوم انسانی تاریخ میں اگر ہے تو کم از کم میرے علم میں نہیں ہے۔ ان کی ناز برداریاں دیکھ دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ہم جارج آرول کے اینیمل فارم میں رہے ہیں جہاں کہنے کو تو سب برابر ہیں لیکن خان صاحب کچھ زیادہ ہی برابر ہیں۔ لیکن کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ عمران کا تعلق پنجاب سے تھا؟ اگر اس کی وجہ ان کا پنجاب سے تعلق ہے کیا ان کے سیاسی حریف پنجاب کی بجائے موریطانیہ کا ڈومیسائل رکھتے ہیں؟ مسلم لیگ ن پر الزام ہی یہی ہے کہ اس نے کبھی شعوری طور پر وفاق کی سیاست نہیں کی اور وہ عملا صرف پنجاب اور پنجاب میں صرف جی ٹی روڈ کی پارٹی ہے۔اگر پنجاب کا ڈومیسائل رکھنا ہی باعث برکت ہوتا تو یہ برکت صرف عمران خاں پر کیوں فدا ہوتی رہی؟ مولانا ہدایت الرحمن صاحب کے بارے میں جورویہ سراج الحق صاحب نے اختیار کیا ہے وہ نا قابل فہم ہے۔ بس ایک آد ھ دفعہ انہوں نے ’ گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے‘ کے لیے رسمی سا بیان دے دیا تا کہ سند رہے ورنہ زبان حال سے وہ بتا رہے ہیں کہ ان کی جانے بلا مولانا ہدایت الرحمن رہا ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے۔ سوال اب یہ ہے کہ کیا سراج الحق صاحب کا ڈومیسائل بھی پنجاب کا ہے اور وہ مولانا ہدایت الرحمن کے لیے اس لیے نہیں بول رہے کہ مولانا کے پاس پنجاب کی بجائے بلوچستان کا ڈومیسائل ہے۔ عمران خان پر جب وقت مہربان ہوا اور ایک صوبے میں ان کی حکومت بنی تو وہ صوبہ پنجاب نہیں تھا۔ وہ کے پی تھا۔ مولانا ہدایت الرحمن صاحب کو یہ بھی یاد ہونا چاہیے کہ اس حکومت کے وزیر خزانہ کا منصب جناب سراج الحق ہی کے پاس تھا ۔ یہی معاملہ جناب آصف زرداری کا ہے۔ انہیں بھی شکوہ ہے کہ عمران کے ساتھ الگ سلوک اور ان کے ساتھ الگ سلوک ہو رہا ہے اور اس کی وجہ ڈومیسائل کا فرق ہے۔یہ مقام عبرت ہے کہ پیپلز پارٹی جیسی قومی جماعت اب علاقائی گروہ بن چکی ہے اور سندھ تک سکڑ کر رہ گئی ہے۔ اب اسے سیاست کے لیے صوبائیت کارڈ کھیلنا پڑ گیا ہے۔ خود وہ صدر رہے ، صاحبزادہ اب بھی وزیر خارجہ ہے ، طاقت کا یہ عالم ہے کہ حافظ نعیم الرحمن ہتھیلی پر سوال لیے گھوم رہے ہیں کہ خود سندھ میں ڈومیسائل کا فرق کیوں رکھا گیا ہے اور اندرون سندھ کے ڈومیسائل کو کراچی کے ڈومیسائل پر فوقیت کیوں دی گئی ہے لیکن کوئی جواب دینے کو تیار نہیں ہے۔ جس حکومت میں وہ شامل ہیں اس کے وزیر اعظم کا ڈومیسائل بھی پنجاب کا ہے۔ وہ اتحادی بھی اسی ڈومیسائل کے ہیں۔ لیکن سماجی سطح پر نیم خواندہ ووٹر میں صوبائیت اور نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے۔ قیادت کو علم ہوناچاہیے ایسی باتیں وہ بھلے تفنن طبع میں بھی کہہ دیں تب بھی معاشرے پر ان کا اثر ہوتا ہے اور وہ شدید ہوتا ہے۔ نفرت بڑھتی ہے۔ کم از کم وفاق کی علم بردار سیاسی جماعت کے رہنما کو اس رویے سے اجتناب کرنا چاہیے۔تاکہ وہ نوبت نہ آئے کہ پنجاب بھی چیخ اٹھے کہ اسے بھی اب ایک قوم پرست رہنما کی ضرروت ہے ۔ آصف زرداری صاحب سے پوچھا جانا چاہیے کہ پنجاب کا ڈومیسائل تو نواز شریف کے پاس بھی ہے ۔ شہباز شر یف کے پاس بھی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ پنجاب کا یہ ڈومیسائل انہیں ناسازگار موسموں کی تپش سے نہ بچا سکا۔ پنجاب کا ڈومیسائل صرف عمران خاں کے پاس تو نہیں ہے۔ ان کے سب سے بڑے حریف کا ڈومیسائل بھی پنجاب کا ہے۔ زرداری صاحب کیا اتنا بھی نہیں جانتے کہ سیاست کا یہ مدو جزر ڈومیسائل سے بے نیاز ہے۔ یہ ایک فیشن بن گیا ہے کہ آتے جاتے دو’ گھسن‘ پنجاب کو لگا دو ۔ ہمیں چاند ماری کے لیے کوئی ایک چاہیے ہوتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے سانحہ مشرقی پاکستان کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم بنگالی بھائیوں کو دودھ کا دھلا میاں معصوم بنا دیتے ہیں اور خود کو لعن طعن شروع کر دیتے ہیں کہ یہ ساری غلطیاں ہماری ہی تھیں۔ ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ پاکستان میں پہلا آمر غلام محمد تھا۔ پہلی اسمبلی اس نے توڑی۔ عدالت نے نظریہ ضرورت اسی کی خوشنودی کے لیے جنم دیا۔ یہ غلام محمد مشرقی پاکستان کا تھا۔پاکستان کا پہلا صدر سکندر مرزا تھا۔ سازشیوں کا جد امجد، یہ بھی بنگال کا تھا۔ فوج کے سربراہ کو کابینہ میں شامل کر کے فوج کو اقتدار کی راہ دکھانے والا وزیر اعظم محمد علی بوگرہ تھا،یہ بھی بنگال کا تھا۔ملک ٹوٹا تو اس کے ذمہ دار کرداروں میں سے ایک بھی پنجاب کا نہ تھا لیکن گالی پنجاب کو پڑی اور پڑ رہی ہے۔ یقینا پنجاب سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن ایسا نہیں پنجاب کو فٹ بال ہی بنا لیا جائے۔ نفرتوں کی فالٹ لائن بھرنے کی ضرورت ہے افسوس ہمارے سیاست دان اسی پر پڑائو ڈال کر بیٹھ گئے ہیں۔