ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کے ساتھیوں نے 30 نومبر 1967 کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی ۔ بھٹو نے پارٹی کے قیام کے لئے پنجاب کو چنا تھا۔ کیوں کہ وہ پنجاب کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ ایوب کابینہ سے الگ ہو کر ذوالفقار علی بھٹو نے 1966ء کے آخر میں راولپنڈی سے لاہور تک کا ٹرین پر سفر کیا اور جب وہ لاہورپہنچے تو ریلوے سٹیشن پر ہزاروں افراد نے اُن کا پُرجوش استقبال کیا تھا۔ اس عوامی ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے مسٹر بھٹو اس قدر جذباتی ہوگئے تھے کہ اُنہوںنے اپنا نیلے رنگ کا کوٹ اُتار کر عوام کی طرف پھینک دیا تھا۔ جس پر لوگ جھپٹ پڑے اور انہوںنے اس کے ٹکڑے اپنے پاس یاد گار کے طورپر رکھ لیے تھے۔ ٹرین کا یہ تاریخی سفر ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی سفر کا آغاز تھا۔ پی پی پی کی بنیا د رکھنے سے پہلے بھی بھٹو پنجاب میں مقبول ہو چکے تھے۔ 1965ء کی جنگ میں اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں اُن کی جذباتی تقریر نے جس میں انہوںنے کونسل اجلاس میں موجود بھارتی وزیر خارجہ کو للکارا تھا۔ مسٹر بھٹو کو پنجاب میں مقبول لیڈر بنا دیا تھا ۔ نومبر 1967ء میں پی پی پی کے قیام کے بعد انہوںنے پنجاب کے دورے کیے تو انہیں بڑی پزیرائی ملی ۔ پارٹی کے ترقی پسند منشور کوبھی پنجاب سمیت دوسرے صوبوں کے محروم طبقات نے پسند کیا۔ یہ زمانہ وہ تھا کہ چین سمیت ایشیاء اور افریقہ کے کئی ملکوں میں سوشلسٹ لیڈر مقبول تھے اور وہ کئی ملکوں میں اقتدر میں تھے۔ انڈونیشیا میں سورسیکارنر ، الجزائر میں احمد بن بیلہ ، عرب ملکوں میں معمر قذافی وغیر ہ شامل تھے۔ بھٹو کے روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کو پاکستان میں بڑی مقبولیت ملی۔ سات اور دس دسمبر 1970ء کو جب جنرل یحییٰ خان نے بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرائے تو مغربی پاکستان کی پیپلز پارٹی نے انتخابات میں سویپ کرلیا۔ بڑے بڑے نامور اور قدر آور سیاست دان بھٹو کے نامزد عام اُمیدواروں کے مقابلے میں ہار گئے ۔ 1970ء کے انتخابات کو نتیجہ افسوس ناک تھا۔ مغربی پاکستان میں مشرقی پاکستان میں اکثریت حاصل کرنے والا شیخ مجیب الرحمان کی جماعت عوامی لیگ کوئی نشست حاصل نہ کر سکی اور پی پی پی مشرقی پاکستان میں نہ جیت سکی ۔ ایک سیاسی بحران پیدا ہوا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ختم ہوا۔ پی پی پی کا دور حکومت ایک ہنگامہ خیز دور تھا۔ ملکی معیشت ٹو ٹی پھوٹی ہوئی تھی اور ملک میں مایوسی تھی۔ بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے اس بحران پر کچھ بڑے اقدام کیے۔ بھٹو نے ملک کو ایک جمہوری آئین دیا اور پھر 1973ء میں ملک کو مستقل آئین دیا۔ جس کے تحت پاکستان اب بھی چل رہا ہے ۔ معشیت کو سہارا دینے کیلئے بھٹو نے اپریل 1974ء میں لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کرائی جس میں مسلمان ملکوں کے سارے سربراہوںنے شرکت کی ۔ اس طرح کی کامیاب کانفرنس اسلامی دنیا میں پھر نہ ہو سکی۔ اس کانفرنس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے تیل کی دولت سے مالا مال مشرقی وسطیٰ کے ملکوں سعودی عرب،عراق،متحدہ عرب امارت کے سربراہوں کو بھٹو نے شامل کیا کہ وہ اپنے ملکوں میں انفراسٹراکچڑ کی کیلئے پاکستان کی ہنر مند اور غیر ہنر مند افرادی قوت کو درآمد کریں۔ مشرق وسطی کے ملکوں میں پاکستانی افرادی قوت کی برآمد کا آغاز لاہور کی سلامی سربراہ کانفرنس کے بعد ہوا۔ اس خاکسار کو اب تک اگست 1977 کا وہ دن یاد ہے جب ذوالفقار علی بھٹو ملک میں مارشل لاء لگنے کے بعد لاڑکانہ سے لاہور آئے تھے۔ وہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ نواب صادق قریشی کی اقامت گاہ پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ اور انہوںنے داتار دربار کا دورہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بھٹو کو دیکھنے کیلئے صبح سے ہی ہزاروں افراد سٹرکوں کے کناروں پر کھڑے تھے کہ لاہور کے اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے لاہور میں دفعہ 144 نافذ کر دی اور بھٹو کو بتایا گیا کہ وہ داتا دربار نہیں جا سکتے۔ مارشل لا ء حکومت کو اندازہ ہوگیا کہ لاہور بھٹو کا شاندار استقبال کرنے کیلئے تیار ہے۔ اس لئے اُن کی رابطہ عوام مہم پر پابندی لگا دی گئی ۔ جنرل ضیاء الحق نے پانچ جولائی 1977 ء کو مارشل لاء لگانے کے بعد قوم سے اپنے خطاب میں یہ وعدہ کیا تھا کہ 90 نوے دن میں الیکشن کراکے نو منتخب حکومت کو اقتدار دینے کے بعد واپس چلے جائیں گے ۔ جنرل ضیا ء الحق نے جولائی 1977 ء کے دوسرے ہفتے جہاں ذوالفقار علی بھٹو فوج کی حفاظتی حراست میں تھے۔ ملاقات کو بھٹو یقین دلایاتھا کہ نوے دن میں انتخابات کراکے واپس چلے جائیں گے اور اگر وہ یعنی مسٹر بھٹو جیت گئے تو وہ انہیں بطور وزیر اعظم سیلیوٹ کریں گے۔ اس ملاقات میں جنرل فیض علی چشتی بھی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ تھے۔ بعد کے واقعات اور بھٹو کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خائف ضیاء الحق انتظامیہ نے مسٹر بھٹو کو راستے سے ہٹانے کیلئے انہیں قتل کے ایک کیس میں گرفتار کرکے عدالت کے ذریعہ سزائے موت دلادی ۔چار اپریل 1974ء کو بھٹو کی پھانسی کے بعد سب سے زیادہ ردّعمل پنجاب میں ہواتھا۔ پنجاب سے ہزاروں پارٹی کارکنوں اور لیڈروں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا گیا ۔ پی پی پی کے کارکنوں کو کوڑے مارے گئے ۔ اور کئی کو پھانسی چڑھا یا گیا۔پنجاب بھٹو کو فراموش نہ کر سکا۔ بے نظیر بھٹو جب دس اپریل 1986ء کو لندن میں جابرانہ جلاوطنی کے بعد لاہور پہنچیں تو عوام کا سمندر بے نظیر کا استقبال کر نے پہنچ گیا۔ ضیاء کی موت کے بعد1988 ء میں ہونے والے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو پنجاب نے اکثریت دے کر کامیاب کرایا۔ یہ الگ بات ہے کہ ضیاء کی باقیات نے پنجاب بے نظیر سے لے لیا اور ان کی حکومت صرف وفاق اور سرحد تک محدود رہی ۔ بے نظیر کے دور سے ہی پنجاب پی پی پی کے ہاتھوں سے کھسکناشروع ہوگیا تھا۔ بے نظیر کو پنجاب میں قدم جمانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ نواز شریف کو پنجاب میں مضبوط کیا گیا۔بے نظیر کے شوہر آصف علی زرداری پیپلز پارٹی اور بھٹو کے نظریہ سے پارٹی کو دور لے گئے۔ انہوںنے پیسے اور پاور پالیٹکس کا راستہ اپنایا۔ اس سے پنجاب میں جو پارٹی کا قلعہ تھا کارکن بد دل ہوتے گئے اور پارٹی پنجاب میں کمزور ہوتی گئی ۔ اب بھی پیپلز پارتی آصف علی زرداری کی قیادت میں Electables کے ذریعے اقتدار میں آنا چاہتی ہے۔ یہ حکمت عملی پارٹی کو عوام سے دُور کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کیا پنجاب میں دوبارہ سیاسی اعتبار سے قدم جا سکے گی ۔ مستقبل قریب میں ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ بلاول بھٹودعویٰ کررہے ہیں وہ اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چل کر پنجاب کو پھر پی پی پی کا قلعہ بنائیں گے لیکن شاید اس مقصد میں انہیں بہت وقت لگے گا۔