(گزشتہ سے پیوستہ)گزشتہ کالم میں محکمہ پولیس پہ دل کھول کے برسنے اور بھڑاس نکالنے کے بعد سوچا کہ اب کچھ مفت مشورے بھی دے دیے جائیں تو بہتر ہو گا۔ شاید کہ کسی کے کان پہ جوں رینگ جائے اور نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی سن ہی لے۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارا محکمہ پولیس ایک عام آدمی کیلیے فوری انصاف اور تحفظ کی بجائے خوف و دہشت کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام سا پاکستانی اور شریف النفس بندہ پولیس ، تھانہ اور کچہری کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ لوگوں کی اکثریت کسی بھی حادثے کی صورت میں پولیس کے پاس جانے سے ہر ممکن گریز کرتی ہے اور معاملہ چوری ڈکیتی کا ہو ، قتل و غارت کا ہو یا زیادتی کا، لوگ تھانے میں رپورٹ درج کرانے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس عدم اعتمادی کی بنیادی وجہ پولیس کی انتہائی ناقص کارکردگی اور کرپشن ہے۔ گزشتہ تین سے چار ماہ کے اندر پاکستان میں جرائم کی شرح میں دو سو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی ، غربت اور بیروزگاری نے جہاں فاقوں میں اضافہ کیا ہے وہیں جرائم پیشہ افراد کے حوصلے بھی بلند کر دیے ہیں۔ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں اسٹریٹ کرائم اپنے عروج پہ ہے۔ اس ضمن میں جنوبی پنجاب سر فہرست ہے جہاں ملتان ، خانیوال ، وہاڑی، بورے والا وغیرہ میں دن دہاڑے ڈکیتی کی وارداتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ پندرہ بیس افراد کے تربیت یافتہ گروہ انتہائی منظم انداز میں دن رات ڈکیتی کرتے ہیں اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ علاقہ مکینوں کی پریشانی اس وقت دگنی ہو جاتی ہے جب متعلقہ تھانے والے یہ کہہ کے رپورٹ درج نہیں کرتے کہ فلاں واقعہ ہماری حدود سے باہر رونما ہوا اور ہم اسکے ذمہ دار نہیں۔ جب کوئی جرائم پیشہ گروہ پکڑا جاتا ہے ( اول تو اسکی نوبت ہی نہیں آتی) تو متعلقہ تھانے حسن کارکردگی کے ستارے ٹانکنے کیلیے انھیں اپنی حدود میں شمار کرتے ہیں اور اگر کوئی گروہ قابو میں نا آئے تو ہر کوئی بری الذمہ ہونے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اس ضمن میں اولین ذمہ داری متعلقہ علاقے کے ایس ایچ او کی ہوتی ہے۔ کسی بھی علاقے میں ہونے والی واردات کا براہِ راست جوابدہ وہاں کا ایس ایچ او ہوتا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے جرائم پیشہ افراد کی اتنی جرات کیسی بڑھ سکتی ہے۔ شریفوں کی طرح بدمعاشوں کے بھی کچھ ریت و رواج ہوتے ہیں کہ جب بھی کوئی گروہ پکڑ میں آتا ہے تو وہ اپنی "محنت" کی کمائی کا کچھ حصہ ان تھانوں کے کرتا دھرتاؤں کو بھی پیش کرتا ہے تاکہ چھٹنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم پیشہ افراد پکڑے جانے کے کچھ دن بعد ہی آذاد ہو جاتے ہیں اور اگلی کمائی کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ چور ڈکیت یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ محکمہ پولیس میں بیشمار پتلی گلیاں ہے جہاں سے نکلنے کا راستہ بآسانی مل جاتا ہے۔ اس ضمن میں پولیس کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ جابجا ناکوں پہ اپنا وقت اور وسائل ضائع کرنے کی بجائے اپنے تھانوں اور ان سے متعلقہ علاقوں پہ توجہ دیں۔ ہر علاقے کے ایس ایچ او کڑی نگرانی اور ٹھوس اقدامات کیے ذریعے جرائم پیشہ گروہوں پہ اپنی گرفت مضبوط کریں۔ کیونکہ پولیس سے مایوس عوام کے ہتھے جب کوئی چور ڈاکو لگ جائے تو لوگ اسے مار مار کے اپنی بھڑاس نکالتے ہیں اور قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ پولیس اس چور کو لوگوں سے بچا کے تھانے تو لے جاتی ہے لیکن اپنا حصہ وصول کرنے کیلئے نا کہ پابند سلاسل کرنے کیلیے۔ نیز اپنا حصہ وصول کرنے کے چکر میں عموماً تھانوں کے مابین رسہ کشی بھی ہوتی کہ فلاں چور تو ہمارے علاقے سے پکڑا گیا ہے نا کہ دوسرے سے۔ گویا چور پکڑا گیا تو ہمارا نا پکڑا گیا تو نجانے کس کا ؟؟ لہذا اسکا فوری سدباب کرنے کی ضرورت ہے اور ٹھوس اقدامات کے ذریعے چوروں لٹیروں کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔ نیز سڑکوں اور شاہراہوں پر پولیس کا گشت بڑھا دیا جائے اور انکی تعداد دگنی تگنی کی جائے۔ جس سڑک پہ بھی چوری اور راہزنی کا واقعہ ہو اس کا ذمہ دار وہ پولیس دستہ ہو جو وہاں ڈیوٹی پہ مامور ہے۔ اس سے لوگوں میں تحفظ کا احساس بڑھے گا کہ پولیس انکے آس پاس موجود ہے اور وہ کسی بھی ناگہانی صورت میں ان سے فوری مدد طلب کرسکتے ہیں۔ کیونکہ لامحالہ پولیس کو اپنے علاقے میں موجود تمام جرائم پیشہ افراد یا گروہ کی خبر تو ہوتی ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اور کن کن وارداتوں میں شامل ہے۔ پنجاب میں جرائم کی شرح 55 فیصد سے بڑھ چکی ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ پولیس اس سے بے خبر ہو۔ جرائم پیشہ افراد سے جتنی باخبر پولیس ہوتی ہے اتنا کوئی اور نہیں ہوسکتا لیکن اسکے باوجود ان گروہوں کا آذادانہ گھومنا اور وارداتیں کرنا پولیس کے منہ پہ طمانچے کی مانند ہے۔ اس ضمن میں المیہ تو یہ بھی ہے کہ اکثر واقعات اور وارداتیں رپورٹ ہی نہیں کی جاتیں۔ ڈی پی او یا ایس ایچ او جیسے اعلی حکام تک کرائم رپورٹ پہنچنے سے پہلے ہی دبا دی جاتی ہے۔ تھانوں کی حدود میں ہی مک مکا کر لیا جاتا ہے اور ایسے میں جرم گھٹنے کی بجائے مزید پنپتا ہے۔ جس معاشرے میں پولیس جرم کی حصہ دار بن جائے اور اسے جڑ سے اکھاڑنے کی بجائے خود جرم کی آبیاری میں لگ جائے وہاں ظلم کا راج ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ پولیس کی اصل ذمہ داری لوگوں کے جان و مال کی ہر حال میں حفاظت کرنا ہے نا کہ موقع پرست بنتے ہوئے جرائم میں ملوث ہونا اور جرائم کو بڑھاوا دینا۔ جب تک پولیس اپنے اصل کام کو ترجیح نہیں دے گی اور ایمانداری سے اپنے فرائض سر انجام نہیں دے گی معاشرے میں امن و عامہ کی صورتحال ایسے ہی بد سے بدتر ہوتی جائے گی۔