آم کو پھلوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے ۔آم کا قومی دن ہر سال 22 جولائی کو منایا جاتا ہے۔ آم کی کاشت پہلی بار ہندوستان میں پانچ ہزارسال پہلے کی گئی تھی۔جنوبی ایشیا میں آم کی اتنی قدر ہے کہ اسے پاکستان اور بھارت کا قومی پھل کہا جاتاہے جبکہ بنگلہ دیش میں آم کے درخت کو قومی درخت سمجھا جاتاہے۔ آموں کی ٹوکری کو خطے میں دوستی کا اشارہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ مہاتما بدھ کو آم کے ایک بڑے درخت کے پاس بیٹھے ہوئے دکھایا گیا تھا اور مغل بادشاہ بابر نے خاص طور پر مزیدار آم چکھنے کے بعد ہندوستان کو فتح کرنے کا فیصلہ کیا، یہ مغل سلطنت ہی تھی جس نے آم کی بہت سی اقسام جن میں مشہور چونسہ اور انور رٹول وغیرہ ہیں کاشت کیں۔ سلطنت کو آم اتنے پیارے تھے کہ ایک شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنے بیٹے کو یہ جان کر سزا دی کہ اس نے محل میں موجود تمام آم توڑ کر کے کھا لئے تھے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، آم ہندوستان سے دنیا کے دوسرے ممالک میں جانے لگے، چونکہ اس میں ایک بڑا بیج ہوتا ہے، آم کو انسانوں کے ذریعے منتقل کرنا پڑتا تھا، دوسرے پھلوں جیسے چیری کے برعکس جو پرندے اور جانور آسانی سے لے جا سکتے تھے ، آم کے پھل کو پرتگال اور برطانیہ کے تاجروں اور نوآبادکاروں نے لایا تھا۔ پاکستان میں آم کی مجموعی پیداوار کا 70 فیصد وسیب میں پیدا ہوتاہے۔ وسیب قدرتی طور پر ہمیشہ سے باغات کی سر زمین رہی ہے ،وسیب کے مرکزی شہرملتان کو پوری دنیا میں ’’مینگو سٹی ‘‘کے نام سے پکارا جاتا ہے کہ ملتان میں آم کے وسیع باغات ہیں اور یہاں کا آم لذت اور ذائقے میں پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔گزشتہ صدی کے آخری عشر ے میں آم کے باغات کو بیماری لگی اور بہت سے باغات تیزی سے ختم ہوئے مگر چند ہی سال میں بیماری ختم ہوئی اور باغات بحال ہی ہوئے تھے کہ ہائوسنگ اسکیمیں آ گئیں جس سے نہ صرف یہ کہ باغات اُجڑنے لگے بلکہ دھڑا دھڑ آم کے پودے قتل ہونے لگے۔ ایک اندازے کے مطابق چند سال میں 15سے 20ہزار ایکڑآم کے باغات ختم ہو چکے ہیں ، باغات کے کٹنے سے ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے ، موسمیاتی تبدیلی میں بھی شدت آ رہی ہے ، یہ صورتحال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے کہ آم کا باغ مشکل سے تیار ہوتا ہے ۔وسیب میں ایک بچے کو پالنا اور آم کے پودے کو پالنا برابر سمجھا جاتا ہے۔آم کا باغ تیار کرنا کس قدر مشکل ہے ؟یہ بتانے سے پہلے میں آم کی اقسام کا ذکر کروں گا کہ آم مشہور ورائٹیوں میں ثمر، بہشت، انور رٹول، سندھڑی ،لنگڑا ،دُسیری، مالٹا ،سرولی ،لب معشوق، غلاب ،غلاب جامن، کالا پہاڑ ،فجری ،فجری گولہ،غبالی،صدقہ پنجتن ،صنوبر ،طوطا پری ،چونسہ ، چونسہ لیٹ،زلف بنگال،سوبھ آلی ٹنگ ،سہاگ ،دلپسند،نازک بدن ،مکھنْ ،منڈھی ،خانگڑھی بچہ ،ملتانی بادشاہ نواب ،آمن عباسی ،پسند مہے ،اشک ملتان، رومان ،بے نظیر بہاولپوری،انوکھا سردا،مٹھا ،منٹھار ،ہاں ٹھار ،زعفران ،زمرد یہ صرف چند نام ہیں اسی طرح دوسرے سینکڑوں ناموں کا مختصر مضمون میں ممکن نہ ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سینکڑوں نام آم کی اہمیت اورپیدواری وسعت کو ظاہر کرنے کیلئے کافی ہے،اصل تخمی آم ہے جو زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے ۔ وسیب میں اسے ’’دیسی ‘‘ آم بھی کہا جاتا ہے ،دیسی آم کی بہت سی ورائٹیاں جن کے الگ الگ ذائقے الگ الگ ر نگ اوران کے الگ الگ وزن ہیں ۔تخمی یا دیسی آم میں پیوندکاری ہوئی اور آم کی نئی نسل ’’ پیوندی آم‘‘ کے نام سے موسوم ہوئی ۔پیوندی آم کو قلمی آم بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا پیوند آم کی ’’قلم ‘‘ سے ہوتا ہے ،یہ آم برائیلر مرغی کی طرح وزن میں بھاری اور عمر میں کم ہوتا ہے اس آم کا استعمال عام ہو چکا ہے ۔آم کے باغات وسیب کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ان کو بچانا ضروری ہے کہ یہ مشکل سے تیار ہوتے ہیں۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے دادا حضور جام غوث بخش دھریجہ اچھے خاصے زمیندار تھے مگر پانچ شادیاں کر ڈالیں ، اُن کا ایک اور شوق اچھی نسل کی گھوڑی رکھنا اور تیسرا اچھی نسل کے بیل رکھنے کے ساتھ بیلوں کے مقابلے کرانا تھا۔ سرائیکی میں اس کو ’’ہاٹھ‘‘ کہتے ہیں۔انہیں بچپن سے دیکھا کہ ہاٹھ پر میرے دادا سئیں بہت خرچ کرتے دور درازسے بیلوں کی جوڑیاں آتیں اور مقابلے ہوتے،زمین کی کاشت کے لئے نہری پانی بہت کم دستیاب ہوتا کہ ہماری نہرششماہی تھی مگر وہ بھی پورے 6ماہ نہیں چلتی تھی ، زمین ٹیل پر ہونے کی وجہ سے پانی کی قلت کا سامنا رہتا تھا۔ میری آبائی بستی دھریجہ نگر(خان پور) میں گھر کے ساتھ والی زمین کنویں سے سیراب کی جاتی تھی، کنویں پر باری باری دو بیل چلتے ایک کا نام ’’تیلا ‘‘تھا اور دوسرے کا ’’ڈبہ‘‘ جب صبح کے وقت ڈبہ کنویں پر جوتا جاتا تو سرائیکی لوک گیت ’’واہے بھئی واہے ڈبہ ڈاند بیلی ‘‘سننے کو ملتا۔میرے دادا حضور کا باغ نہیں تھا البتہ آم ،کھجور اور مالٹے کے کچھ پودے کاشت کئے ہوئے تھے ،سب سے زیادہ دقت آم کے پودے کی رکھوالی ہے۔ خصوصاً ان حالات میں جہاں پانی کی قلت ہو اور کاشت کار کو پانی دور سے بھر کرلانا ہو تو بہت مسئلہ ہوتا ہے۔ یہی مسئلہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرے دادا اور میرے چچا (حاجی عید احمد دھریجہ کے والد )جام اللہ وسایا دھریجہ دور سے پانی بھر بھر کر آم کے پودوں کو دیتے تھے ۔ ایک افسوس اس بات بھی کا ہے کہ وسیب پر بہت کم تحقیقی کام ہوا اور وسیب کا خوبصورت منظر اب بھی دنیا سے اوجھل ہے۔ کسی بھی علاقے کی یونیورسٹی کا پہلا مقصد مقامی زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ مقامی تاریخ ،آثار اورجمادات ونباتات پر تحقیقات ہوتا ہے۔ وسیب میں پہلے تو یونیورسٹیاں نہیں اور جو چند ایک ہیں انہوں نے بھی اپنا حق ادا نہیں کیا ۔اسی بناء پر میں یہ کہوں گا کہ سرائیکی شاعر جہانگیر مخلص کی ایک طویل نظم ہے ۔’’آ میڈٖا جانی آ ،آ میڈٖے دیس وچ‘‘اسی نظم کے حوالے سے میری بھی دوسرے صوبوں میں رہنے والے دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ وسیب میں آ کر وسیب کی ہریالی کو دیکھیں ،وسیب کے کھیتوں کے دیکھیں اور وسیب کے باغات کو دیکھیں گے تو دنیا کے دیگر خطوں کی خوبصورتی کو بھول جائیں گے۔