آپ مجھ سے پوچھیں سیاست کی آنکھیں کیسی ہوتی ہیں۔بے دھڑک بتا دوں گا کہ ان میں کسی دوسرے فرد اور طبقے کے لئے حیا‘ مروت اور شرم نہیں چمکتی۔پیشانی کا پوچھیں‘ بتا دوں گا کہ ہر بت کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔آپ جو پوچھیں گے جواب اچھا نہیں ملے گا۔ اس لئے کہ متحدہ ہندوستان میںسیاست درباری سازشوں سے شروع ہوئی اور اب ہمارے ہاں عوام کے خلاف سازشوں پر زندہ ہے۔ 9مئی کا حوالہ اہم ہے۔یہ طے ہو گیا کہ عمران خان اپنے نوجوانوں کی قوت سنبھال نہ سکے ۔پاکستان کا ہر محب وطن ان واقعات کی مذمت کرتا ہے۔ایسے واقعات داخلی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں لیکن پچھلے ایک ماہ سے وزیر اعظم اور ان کے وزراء 9مئی کا ہر روز ذکر کرتے ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ دوسروں سے زیادہ محب وطن ہیں، پاکستان کے عوام پاک فوج سے محبت کے لئے ان کا بیانیہ خریدیں۔کیوں؟ پاک فوج اور عوام ایک ہیں۔وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ہاں سیاست دانوںنے ان کے درمیان شر پھینکنے کا کام ضرور کیا۔ گزشتہ ایک کالم میں عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس حکمران اشرافیہ سے اپنا حق لینے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔مڈل کلاس کو سب سے زیادہ لیفٹ کی مزدور یونین، لیبر پارٹیوں اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے گروپوں نے منظم کیا ، ایم کیو ایم ، اے این پی ،تحریک انصاف سے پہلے پیپلز پارٹی بھی ایک وقت میں مڈل کلاس کی نمائندگی کرتی رہی ہے۔اب مڈل کلاس کو خطرناک بنا کر پیش کرنے کا رواج ہے ، ن لیگ اس بیانئے کو عام کر رہی ہے۔ حکمران اشرافیہ کے پاس دولت اور بیرونی طاقتوں سے تعلقات ہیں۔ وہ بین الاقوامی میڈیا سے لے کر تجزیہ کاروں تک کو اپنی لابنگ کے لئے استعمال کر سکتی ہے۔وہ عالمی طاقتوں کے ایجنڈے پر عمل درآمد کا وعدہ کر کے مدد حاصل کر لیتی ہے۔اس کے ہاتھ قانون سے بھی لمبے ہیں۔ پاکستان کو پچھلے بیس برسوں سے ناکام ریاست ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔سٹیفن پی کوہن‘ ہنری کسنجر اور بہت سے دوسرے سیاسی مفکرین ان موضوعات پر بات کرتے رہے ہیں۔شروع میں یہ پراجیکٹ بھارت کا سپانسرڈ بتایا جاتا تھا۔ بھارتی حلقے پاکستان کے ناکام ریاست ہونے کی بات ہر اہم موقع پر اڑا دیا کرتے۔جب جب پاکستان میں بدانتظامی بڑھی‘ سیاسی اور جمہوری اقدار کی پامالی ہوئی‘ پاکستان اور عالمی اداروں کے تعلقات میں خرابی نظر آئی‘ پاکستان کے لوگ اور حکومت الگ الگ صفحے پر نظر آئے،یہ کہا گیا کہ پاکستان ناکام ریاست بن رہا ہے۔ کوئی سولہ سترہ برس قبل لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے ملک سے باہر جانا شروع کر دیا۔ حامد خان تحریک انصاف پنجاب کے صدر تھے۔ ان سے انٹرویو کے دوران میں نے پوچھا کہ جدید تعلیم اور ہنر سے آراستہ لاکھوں نوجوان ملک سے جا رہے ہیں۔ ان کی جماعت برسر اقتدار آئی تو کیا ان نوجوانوں کی صلاحیت سے ملک کو فائدہ اٹھانے کے قابل بنانے کا منصوبہ دے گی؟ حامد خان نے کہا کہ اس برین ڈرین میں کوئی حرج نہیں۔یہ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے بچے ہیں جو اچھے مواقع کی تلاش میں باہر جا رہے ہیں۔یہ وہاں جا کر کامیاب ہوں گے‘ پیسہ کمائیں گے اور پھر ان کا تجربہ اور پیسہ کسی نا کسی شکل میں پاکستان کو فائدہ پہنچائے گا۔ آج دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کسی نے سازش کر کے ان پاکستانیوں کو ہمارے اداروں اور ہمارے سماج سے بدگمان کر دیا ہے۔ بیرون ملک مقیم تارکین اپنے سیاست دانوں پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ دولت حکمران طبقات کا وہ شکنجہ ہے جس نے انتخابی نظام سے مڈل کلاس کو نکال دیا ہے۔80 فیصد نچلے طبقات کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں۔الیکشن کمیشن کے ضابطے حکمران اشرافیہ نے خودترتیب دیے ہیں۔ ان ضابطوں میں ایسی انجینئرنگ کی گئی ہے کہ عام آدمی بطور امیدوار سامنے نہ آ سکے۔کاغذات نامزدگی سے لے کر انتخابی اخراجات تک ہر جگہ غلط بیانی اور جھوٹ ہے۔ گوشواروں میں اپنے اور اپنی فیملی کی دولت ظاہر نہیں کی جاتی۔انتخابی اخراجات کے متعلق ہر رکن جھوٹ بولتا ہے۔ سب ایک دوسرے کے رشتے دار اور باہمی مفادات سے بندھے ہوئے ہیں۔یہ اپنی گرفت اس سطح تک مضبوط رکھنا چاہتے ہیں کہ قانون سازی سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں میں دلچسپی لیتے ہیں‘ وہ ترقیاتی منصوبے جن کا کمیشن ان کی دولت کے ڈھیر کو پہاڑ بنا دیتا ہے۔ مڈل کلاس ملک کی ترقی کا انجن ہوتی ہے۔چین نے اس لئے ترقی کی کہ اس نے 70کروڑ غریب افراد کو غربت سے نکالا۔بھارت کی مڈل کلاس نے سیاست دانوں پر انحصار کرنے کی بجائے خود کو معاشی اور تعلیمی لحاظ سے مضبوط کیا۔بنگلہ دیش میں مڈل کلاس نہ ہونے کے برابر تھی۔ہم انہیں ٹکے کے طعنے دیتے تھے۔آج ہر بنگلہ دیشی شہری کی آمدن پاکستانی شہری سے دوگنا ہے۔ان کے ٹکہ نے روپے کو ٹکے کا نہیں رہنے دیا۔ پاکستان کے پاس تیز رفتار ترقی کے کئی انجن ہیں۔قابل کاشت زمین‘ موزوں موسمیاتی نظام‘ نوجوان آبادی ‘ معدنی وسائل‘ پہاڑوں‘ میدانوں‘ صحرائوں اور ساحلوں سے مزین رقبہ۔پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، جو عالمی تجارت اور دفاع کے حوالے سے بہت اہم ہے۔پھر مڈل کلاس نے ترقی کیوں نہیں کی؟ مڈل کلاس با اختیار کیوں نہیں ہوئی؟ مڈل کلاس فیصلہ سازی میں شریک کیوں نہیں؟ ان سوالوں کا جواب میں جانتا ہوں۔وہ سب لوگ اس جواب سے واقف ہیں جو سیاسی موضوعات کو صرف کسی جماعت کی ترجمانی اور رواں تبصرے کی بجائے ایک فکری عمل سمجھتے ہیں اور خرابیوں کی نشاندہی پر اکتفا نہیں کرنا چاہتے‘ ان خرابیوں کو دور کرنے کا لائحہ عمل سامنے آنا چاہیے۔مڈل کلاس کی بے بسی ریاست کی ناکامی کے طور پر ابھر رہی ہے۔یہ ایک سنگین صورت حال ہے۔نظام اگر اپنا ظرف کشادہ نہیں کرے گا تو بحران کی شدت ہمارے وجود پر دراڑیں ڈال دے گی۔ حکمران طبقات نے مڈل کلاس کی بیداری کی بو سونگھ لی ہے۔پرانے شکاری اب نیا جال لے کر آ گئے ہیں۔