اپریل کا مہینہ آتا ہے تو ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر بھی ہوتاہے۔ چار اپریل 1979 ء کو اعلیٰ الصبح راولپنڈی کے جیل میں سپریم کورٹ کی طرف سے سزائے موت دئے جانے پر سابق وزیرا عظم کو تختہ دار لٹکا دیا ۔چاراپریل 1979 ء سے پہلے چند ہفتوں تک یہ بحث ہو رہی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جائے گی یا نہیں ۔ دنیا کے ایک سو کے قریب ممالک کے سربراہوں نے بھٹو کی سزائے موت کو ختم کرنے اور اسے عمر قید میں تبدیل کرنے کی اپیل کی تھی۔اُس وقت کی پیپلز پارتی کی قیادت اور کارکن بڑے اعتماد سے کہہ رہے تھے کہ بھٹو کو کوئی پھانسی نہیں دے سکتا ۔ تین اپریل کی رات گئے تک پاکستانی اخبارات کیلئے اس خبر کی تصدیق مستند ذرائع سے نہیں ہو پا رہی تھی ۔ بی بی سی سے یہ خبر بریک ہونے کے بعد کئی پاکستانی صحافی راولپنڈی جیل کی طرف دوڑ پڑے تھے لیکن انہیں جیل سے بہت پہلے روک دیا گیا تھا۔ تین اپریل کی رات کے آخری پہر عسکر ی ذرائع نے خبر کی تصدیق کی تو اخبارات نے یہ خبر بینر ہیڈ لائنز کے ساتھ خبر شائع کی۔ دیر سے خبر کی تصدیق ہونے کے باعث چار اپریل کے اخبارات صبح سات بجے تک پرنٹ ہوتے رہے اور مارکیٹ میں قدرے تاخیبر سے ترسیل ہوئے ۔ پھانسی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی لاش ایک سی30 طیارے کے ذریعے لاڑکانہ پہنچائی گئی ۔جہاں چند افراد نے اُن کے جنازے میں شرکت کی ۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی بھٹو سے جیل میں الوداعی ملاقات کرائی گئی ۔ لیکن وہ جنازے میں شریک نہ ہوسکیں اور نہ انہیں اس کی اجازت دی گئی ۔ بھٹو خاندان کے لوگ بھی اس جنازے میں شریک نہ ہو سکے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ایک سیاہ باب تھا۔ ایک مقبول وزیراعظم کو قتل کے ایسے مقدمے میں پھانسی دی گئی جس میں وہ براہ راست ملوث نہیں تھے۔ بھٹو کے خلاف قتل کا مقدمہ انہیں راستے سے ہٹانے کیلئیبنایاگیا۔ اس بارے میں سپریم کورٹ میں دائر ریفرنس میں وکلاء کے دلائل سامنے آچکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ایسے وقت ہٹا کر مارشل لاء لگایا گیا جب ذوالفقار علی بھٹو اور اُن کی اپوزیشن کے درمیان یہ بات طے ہوگئی تھی کہ سات مارچ 1977 ء کے قومی اسمبلی کے متنازعہ الیکشن کو منسوخ کر کے از سر نو انتخابات کرائے جائیں گے۔ پاکستان قومی اتحاد کی وہ ٹیم جو 1977 ء کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق حکومت سے مذاکرات کر رہی تھی۔ اُس کے ارکان نے بعد میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پیپلز پارٹی کی حکومت اور اپوزیشن پاکستان قومی اتحاد کے درمیان از سر نو انتخابات کرانے پر اتفاق رائے ہوگیا تھا۔ جماعت اسلامی کے سابق راہنماغفور احمد جو اپوزیشن کی مذاکراتی ٹیم میں شامل تھے نے اس بات کی اپنی کتاب میں تصدیق کی ہے کہ سمجھوتہ ہو گیا تھا۔ حکومتی ٹیم میں شامل مسٹر بھٹو کے معتمد ساتھی اور وزیر قانون حفیظ پیر زادہ نے اپنے ٹیلی ویژن انٹرویو میں بھی کہا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے یہ ہدایت کر دی تھی کہ اپوزیشن کے ساتھ طے ہونے والے سمجھوتے کا مسودہ تیار کرکے دستخط کیلئے پیش کیا جائے۔ بھٹو حکومت کے وزیر اطلاعات مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب اور ’’لائن کٹ گئی ‘‘ میں بھی ہی لکھا ہے کہ 1977 ء کے متنازعہ انتخابات کی جگہ نئے انتخابات کرانے پر اتفاق رائے ہوگیا تھا کہ مارشل لاء لگا دیا گیا۔چار جولائی کی رات ’’اپریشن فیئر پلے ‘‘Operation Fair Play کے نام سے ایک اپریشن کیا گیا جس میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو ، اُن کی کابینہ کے ارکان اور اپوزیشن راہنمائوں کو فوج نے خفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ مسٹر بھٹو اور اُن کی کابینہ کے ارکان کو مری پہنچایا گیا۔ بھٹو صاحب کو کشمیر پوائنٹ پر واقع گورنر ہائوس میں پندرہ دن کیلئے خفاظتی تحویل میں رکھا گیا۔ جولائی 1977 ء کے آخری ہفتہ میں جب ذوالفقار علی بھٹو کو خفاظتی تحویل سے رہا کیا گیاتو بھٹو رہائی کے بعد مری سے لاڑکانہ چلے گئے۔ لاڑکانہ میں چند روز قیام کے بعد جب وہ ٹرین کے ذریعہ کراچی آئے تو راستے میں ہزاروں افراد نے اُن کا استقبال کیا۔ بڑی تعداد میں یہ لوگ اُس ٹرین کے ساتھ بھاگتے رہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو سفر رہے تھے۔ کراچی پہنچنے کے بعد اُن کی اقامت گاہ70 کلفٹن پر لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوگیا۔ بھٹو کے قابل اعتماد ساتھی اور سینئر صحافی بشیر ریاض نے اپنی کتاب ’’میراپاکستان‘‘ میں لکھا ہے کہ جب مسٹر ذوالفقار علی بھٹو اگست1977 ء میں کراچی آئے تو کراچی میں اُن کی اقامت گاہ پر اُس وقت کے کراچی کے کور کمانڈر لیفٹنٹ جنرل جہانزیب ارباب ملاقات کیلئے آئے تو انہوںنے مسٹر بھٹو کو لاڑکانہ سے کراچی تک شاندار عوامی استقبال پر مبارک باد دی ۔ میرا پاکستان ‘‘کتاب کے مطابق مسٹر بھٹو نے اُس وقت کے کراچی کے کور کمانڈر کو یاد دلائا کہ جو 1977 ء میں راولپنڈی میں ہونے والی فوجی کمانڈروں کی ایک میٹنگ میں انہوںنے (بھٹو نے)کہا تھا کہ اگر مجھے اقتدار سے فوجی ٹیک اوور کے ذریعے ہٹایا گیا تو کراچی سے خیبر تک لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے اور اُن کی واپسی کا مطالبہ کریں گے۔ کراچی میں قیام کے بعد جب اگست میں ذوالفقار علی بھٹو لاہور آئے تو وہاں بھی عوام نے اُن کا شاندار استقبال کیا۔ بھٹو پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ نواب صادق قریشی کی اقامت گاہ پرگئے جہاں سے وہ داتا دربار جانے والے تھے کہ لاہور کی انتظامیہ نے دفعہ 144 ء لگا کر اُن کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی گئی ۔ اس دوران ذوالفقار علی بھٹو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ضیاء الحق کے درمیان فون پر بات چیت بھی ہوتی رہی ۔ لیکن دونوں کے درمیان تلخی بڑھتی رہی ۔ اگست 1977 ء میں راولپنڈی میں جنرل ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو میں ملاقات بھی ہوئی لیکن کشیدگی مزید بڑھ گئی ۔ ستمبر 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کو نواب احمد خان کے قتل کے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا۔ اُن کا ٹرائل ہوا۔ لاہور ہائی کورٹ نے انہیں سزائے موت سنائی جس کو سپریم کورٹ نے چار اور تین کے منقسم فیصلے کے ذریعہ برقرار رکھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھٹو کی عوامی سطح پہ بڑھتی ہوئی مقبولیت نے مارشل لاء انتظامیہ اور اُن کے سیاسی مخالفین کو خوف زدہ کر دیا تھا۔