ایک اور حکومت رخصت ہوگئی‘ماہ آزادی ہے‘ 76واں آزادی کا جشن ہوگا‘ عوام کے مسائل مگر کب ختم ہونگے اور کون ختم کریگا؟ بڑے بڑے دانشور‘صحافی‘کالم نگار اور تاریخ دان اپنی قابلیت کی استعداد کے عین مطابق ان 76 برسوں پر روشنی ڈالیں گے‘قلم سے سیاہی بہائیں گے‘ عوام کے قصور وار کیا اب کی بار کٹہرے میں لائیں جائیں گے یا کم از کم ان کرداروں کو منصفانہ انداز میں بے نقاب کیا جائے گا؟ یہ سوال 76برسوں سے جواب طلب ہے اور اس کا جواب دینے کو کوئی تیار نہیں۔ ابھی مادر وطن کی تمام سیاسی جماعتوں کے کٹھ پی ڈی ایم اتحاد کی حکومت اپنے گھر گئی ہے‘قومی اسمبلی تحلیل ہوچکی لیکن ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے مرکب حکمرانوں نے معیشت کا جس انداز میں تیا پانچا کیا‘اس کا حساب کوئی مانگ نہیں رہا۔ قوم میں اتنی سکت نہیںکہ وہ حساب کی متقاضی ہوسکے‘وجوہات بیشتر ہیں‘کسی سے پوشیدہ بھی نہیں۔ صدیوں پر محیط غلامی کی سوچ قوم کا سب سے بڑا المیہ بن چکی۔ملوکیت سے شروع ہونیوالا اقتدار کا کھیل بادشاہت اور انگریز کی غلامی تک ذہن کی وسعتوں کو مفلوج کرتا رہا اور آخر کار انجام ہمارے سامنے ہے کہ ہمیں اپنے مسائل کا ادراک ہوتا ہے نہ ہی اس کے تدارک کی کوئی تدبیر سوجتی ہے۔ ہر مسئلہ معمہ نہیں ہوتا‘بڑے سے بڑے بحران کا حل محض عقلی منطق اور شواہد کا جائزہ لے کر انتہائی آسان ہوا کرتا ہے‘مثال کے طور پر وطن عزیز معاشی طور پر انتہائی نا مساعد حالات کا شکار ہے‘اس کے حل کی طرف کسی بھی ذمہ دار کی توجہ مبذول کروائی جائے تو لمبی لمبی تقاریر اور تجاویز جھاڑ دی جاتی ہیں‘ حالانکہ معیشت کو بہتر کرنے کی جانب آسان قدم اٹھائے جاسکتے ہیں۔ ملک میں کرپشن کا خاتمہ کرنے کیلئے حقیقی پالیسیوں اور اقدامات کا اٹھایا جانا کتنا دشوار ہے؟ بظاہر یہ ایک آسان کام ہے لیکن حکمرانوں کی صفوں میں کون ہے کہ جس پر کرپشن کے الزامات نہ ہوں؟ اس کے علاوہ حکومتی اخراجات پر قابو پانا کیا حکومتوں کے دائرہ اختیار سے باہر ہے؟ حالیہ دنوں میں رخصت ہونیوالی پی ڈی ایم حکومت نے اپنے اتحاد میں شامل 13جماعتوں کو ہر سیاسی اعتبار سے نواز نے کیلئے وفاقی کابینہ کی تعداد میں روز اضافہ کیا‘لاکھوں‘کروڑوں کے جمع ہوجانے سے کیا اربوں روپے کے ان اخراجات پر قابو نہیں پایاجاسکتا تھا؟ موجودہ حکمران مہنگائی ختم کرنے آئے تھے اور اپنی سیاست ختم کرکے چلے گئے‘ جس 16فیصد مہنگائی کا رونا روتے ہوئے مگر مچھ کے آنسوبہائے جاتے تھے‘حکومت میں آنے کے بعد مہنگائی کی یہ شرح 40 فیصد پر پہنچاگئی۔بجلی‘گیس صارفین پر دو ہزار ارب کے لگ بھگ اضافی بوجھ منتقل کیا گیا۔ وطن عزیز جہاں گندم کی دستیابی عام آدمی کیلئے کبھی مسئلہ نہیں رہی تھی‘ان حکمرانوں کے اقتدار میں صرف پنجاب کے بڑے شہروں میں قائم یوٹیلٹی سٹورز جہاں سے سرکاری نرخوں پر آٹا دستیاب آتا ہے‘اعداد و شمار اکٹھے کرکے کوئی دیوانہ بھی اندازہ لگا سکتاہے کہ عوام کی حالت بدحال کیا ہے۔ وزیر اعظم شہبازشریف جتنا مرضی کہیں کہ حکومت نے ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کردیا ہے۔ عوام اور مڈل کلاس طبقے کی محرومیاں جن کی بنیاد پی ڈی ایم حکومت نے ڈالی‘اسے کیسے فراموش کیا جاسکتاہے۔ مہنگائی 200 سے 300 فیصد بڑھی‘ معیشت کا الگ جنازہ نکالا گیا‘ اس قدر ابتری رہی کہ زر مبادلہ کے ذخائر کی درد ناک کہانی دنیا بھر میں پاکستان کی رسوائی کا باعث بنی۔ تاحال زر مبادلہ کے ذخائر اور ترسیلات زر کے مسائل بحرانی کیفیت سے باہر نہیں آسکے۔حکومت ایک جانب اس سارے معاشی بگاڑا کا ذمہ دار سابق حکمران یعنی چیئرمین پی ٹی آئی کو قرار دیتی ہے اور دوسری طرف اپنی رخصتی سے چند روز قبل وزیر خزانہ کی حیثیت سے اسحاق ڈار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خوفناک اضافے کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ایسا کرنے پر مجبور ہیں۔عوام ان حالات میں جب زندگی بسر کرنے کا گمان کرتے ہوئے بھی خوفزدہ ہے وہ یہ تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں کہ آئندہ نواز شریف‘شہباز شریف‘ بلاول بھٹو زرداری‘آصف علی زرداری‘جہانگیر ترین میں سے کسی کی بھی حکومت آئی اور ملک کے حالات بہتر ہوںگے۔ اس کی بیشتر وجوہات ہیں‘نواز شریف ملک کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہ چکے‘35برسوں سے اقتدار میں ہیں‘آج تک وہ سب کیوں نہ کیا جاسکا‘جس کا اب واویلا کیا جارہاہے۔ محترمہ مریم نواز لاکھ کہیں کہ عوام لیپ ٹاپ تقسیم کرنے والوں کو ووٹ دیںگے۔ زمینی حقائق اس کی گواہی نہیں دیتے‘لازمی امر ہے کہ کسی کے پیٹ میں دو وقت کی خوراک نہ جائے اور اوپر سے ظالمانہ بجلی‘گیس کے اخراجات کا بوجھ اس کی کمر پر لاد دیا جائے تو وہ کیسے ایسے حکمرانوں کو برداشت کرسکتا ہے۔ حکومت نے جتنی تن دہی سے سیاسی مخالف جماعت پی ٹی آئی کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی اور پوری توانائی صرف کرتے ہوئے اپنا وقت ضائع کیا ملک و ملت کا تہس نہس کرکے رکھ دیا‘اگر اپنے فرائض پر توجہ دیتیتو ان حالات کا سامنا نہ کرنا پڑتا‘جنہوں نے عوام کا برا حال کرنے کے علاوہ حکومت کو سیاسی مستقبل کے تناظر میں اس حد تک ذہنی طور پر منتشر کررکھا ہے کہ نگران وزیر اعظم کا تقرر تماشہ بن گیا‘ بہرحال پی ڈی ایم حکومت نے جو کیا اس پر کہا جاسکتا ہے:مجھ پہ جو گزری سو گزری ہے سن…تجھ پہ جو گزرے گی تو مشکل ہوگی!عوام کا سوال بدستور موجود ہے:ایِک اور حکومت رخصت ہوگئی‘ماہ آزادی ہے‘ 76واں آزادی کا جشن ہوگا‘ عوام کے مسائل مگر کب ختم ہونگے اور کون ختم کرے گا؟