اُردو ادب بہت خوش قسمت ہے کہ اسے نثری مزاح میں پطرس بخاری، شفیق الرحمن، ابنِ انشا، مشتاق احمد یوسفی، کرنل محمد خاں، عطاء الحق قاسمی اور شاعری میں اکبر الہٰ آبادی، سید محمد جعفری، راجا مہدی علی خاں، عنایت علی خاں، دلاور فگار، سرفراز شاہد، انور مسعود اور انعام الحق جاوید جیسے نابغے میسر آئے۔ سید ضمیر جعفری وہ واحد ہستی ہیں جن کا قلم دونوں طرف پوری آب و تاب اور گھن گرج کے ساتھ چہکتا ہے۔ اسی ضمیر جعفری نے اپنے عہد کے ایک منفرد مزاح کی بابت کہا تھا: شاعر ، سائنس دان ، قلندر ، رِند ، امیر ، فقیر شعر طبیعت ، سائنس روٹی ، رِندی شغل کبیر پیر ستارہ گیر ، واہ رے شیخ نذیر یہی نذیر احمد شیخ ہماری آج کی تحریر کا موضوع ہیں، کوئی ادبی پیری مریدی نہ ہونے کے باوجود،جن کا مزاح زمانۂ حال میں بھی پوری توانائی کے ساتھ بولتا ہے۔ ان کا نظریۂ ظرافت اس شعر میں دیکھا جا سکتا ہے: مسکراہٹ ہے دہن میں گدگدی قہقہہ ہے تن بدن میں گدگدی نذیر احمد شیخ انیس جون 1908کو پٹیالہ میں پیدا ہوئے۔ (اس حوالے سے آج ان کی ایک سو چودھویں سالگرہ بھی ہے) پنجاب یونیورسٹی سے ایم ایس سی کیمسٹری کرنے کے بعد مختلف فیکٹریوں میں خدمات انجام دیتے ہوئے آرڈیننس فیکٹری واہ کینٹ سے ریٹائر ہوئے اور سترہ مارچ 1971 ء کو وفات پائی۔ پہلا مجموعہ ’’حرفِ بشاش‘‘ کے نام سے چھپا۔ 1995 ء میں جناب سرفراز شاہد نے ان کا کلیات ’’واہ رے شیخ نذیر‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا۔ 1997 ء میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی خواہش پر نیشنل بک فاؤنڈیشن کے لیے ایک انتخاب برادرم محمد عارف نے کیا۔ نذیر احمد شیخ کا قلم غزل، نظم، قطعہ میں یکساں رواں تھا۔ ایک نئی پانچ مصرعی صنف ’لِمرک‘ کو متعارف کرایا۔ نئے نئے موضوعات تلاشنے اور پرانے موضوعات کو انوکھے ڈھنگ سے تراشنے میں ملکہ حاصل تھا۔ خود بھی دبلے پتلے تھے، پھر بھی روایتی اور غربت کے مارے سُوکھے سڑے شاعروں کا حلیہ دیکھیے کس شان سے بیان کیا ہے : کیا حضرتِ شاعر کا بیاں کیجیے حلیہ ہے ناک تو موجود مگر گال ندارد دولت ہے کہ منحوس کی صورت نہیں دیکھی عزت ہے کہ از شامتِ اعمال ندارد مضمون بہت ملتے ہیں ، روٹی نہیں ملتی روٹی جو کبھی مل بھی گئی ، دال ندارد ردّی جو کبھی بیچ دی بیوی نے اٹھا کر سب رومی و فردوسی و اقبال ندارد ہمارے ہاں لوکل بسوں ویگنوں کی جو حالت ہوتی ہے، اس پہ بھی تقریباً ہر مزاحیہ شاعر نے طبع آزمائی کی ہے، ذرا ان کی ’زمیندار بس‘ کا عالم بھی دیکھیے: نہ بس چل رہا ہے ، نہ بس چل رہی ہے زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے اگر رُوٹ پرمٹ اسے راس ہوتا ٹکٹ کوئی ہوتا ، کوئی پاس ہوتا عبث دیر کرنے کا احساس ہوتا سوا سات چلنی تھی، دس چل رہی ہے زمیندار بستی کی بس چل رہی ہے ہمارے ہاں شادی، غمی کی تقاریب میںزمانے بھر کی مقروض امتِ مسلمہ کی عیاشیوں کا یہ انداز بھی ملاحظہ ہو: بہ تقریبِ شادی مکاں رہن رکھ دیں جو چہلم منائیں دُکاں رہن رکھ دیں اَڑے وقت میں داڑھیاں رہن رکھ دیں اگر بس چلے دو جہاں رہن رکھ دیں ولیمے ، عقیقے ، ہزاروں طریقے وہی ایک چاؤ ، اُڑاؤ پلاؤ جُز رسی، باریک بینی اور منظر نگاری، نذیر احمد شیخ کے مزاح کے خاص حربے ہیں۔ کسی بھی علاقے میں چلنے والی آندھی میں لوگوں اور ماحول کی کیا صورتِ حال ہوتی ہے: کھڑکی کھڑکے، سرکی سرکے، پھڑکے روشن دان ناکہ بندی کرتے کرتے گھر سب ریگستان جھاڑو جھاڑن موج منائیں، ان کا اپنا راج پیپا بیٹھا ڈھول بجائے، کتھک ناچے چھاج چھت پر ہم جو بستر ڈھونڈیں، عقل ہماری دنگ کھاٹ بچاری اُڑن کھٹولا، بستر دُور پتنگ ساڑھی کھینچے، چولی جھپٹے، دھوبی باندھے پوٹ پنکھ لگا کر اُڑتے جائیں لہنگا، پیٹی کوٹ متوسط گھرانوں میں عام طور پر ایک ہی الماری ہوتی ہے، جس میں پورے گھر کا الّم غلّم ٹھونسا ہوتا ہے، سامان کی تفصیل نذیر احمد شیخ کی نظم میں دیکھیے: مُونگ اس میں ہے، ماش اس میں ہے ایک پیٹھے کی لاش اس میں ہے جل کے چولھے پہ بجھ گئی ہانڈی آلوؤں کی تلاش اس میں ہے سارے کنبے کے بڑھ گئے ناخن کیونکہ ناخن تراش اس میں ہے نذیر احمد شیخ کا کلیات سدا بہار شگفتہ کلام سے بھرا پڑا ہے۔ انوکھی قافیہ بندی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ محدود گنجائش کے پیشِ نظر چند مزید مثالیں: بہتی آنکھوں میں ڈال کر سُرمہ اس نے جہلم کو نیل کر ڈالا مے کدہ جو الاٹ تھا ہم کو وہ حکومت نے سِیل کر ڈالا