جناب اسحق ڈارکی باتیں سن رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں پاکستان کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے جو اس کی معیشت سنبھالنے کا کام اسحق ڈار کے سپرد کر دیا گیا۔ ایک ایسا وزیر خزانہ جسے پاکستانی معیشت کی مبادیات کا علم نہیں۔ ایک بار کسی بڑے اشاعتی ادارے کے متعلق اس کے ذمہ دار نے مجھ سے تبصرہ چاہا۔میں نے کہا کہ میری تنخواہ فیصلے کرنے والی نہیں صرف حکم ماننے والی ہے اس لئے کوئی فیصلہ نہیں دوں گا بس یہ تبصرہ کر سکتا ہوں کہ یہ ادارہ انتظامی زورسے چل رہا ہے۔اس کے معاملات اور طریقہ ہائے کار میں تخلیقی بہائو نہیں۔ کری ایٹو فلو آزاد ذہن لاتے ہیں‘ وہ لوگ تخلیقی ماحول پیدا کرتے ہیں جو سوچتے اور سوچنے والوں سے رابطہ رکھتے ہیں۔یہاں سارے مکینک پاکستان کے پرزے کھول کر بیٹھ گئے ہیں ۔اب ری اسمبل کون کرے ۔پاکستان کے حالات غیر معمولی ہیں تو اسے غیر معمولی لوگ ہی بھنور سے نکال سکتے ہیں ۔یہاں امیدوں کی گٹھڑی جناب اسحق ڈار کے کندھوں پر رکھ دی گئی ہے۔ ابھی کل ہی کہیں بات ہو رہی تھی کہ اگلے الیکشن کی تیاریاں شروع ہو رہی ہیں۔بلاول بھٹو نے یہ کہہ کر مسلم لیگ نون کے رونگٹے کھڑے کر دئے ہیں کہ پنجاب میں بھی اسی طرح جیتیں گے جیسے کراچی کے بلدیاتی انتخابات جیتے ۔مسلم لیگ نواز تو انتخابی مہم شروع کرنے کی بات کرنے لگی ہے۔کوشش کی جا رہی ہے کہ نواز شریف واپس آئیں اور انتخابی مہم کی قیادت کریں۔تیاریاں عروج پر ہیں ، واپسی پر استقبال عمران کے جلسوں سے بڑا ہونا چاہئے ،سارا میڈیا حاضر ہو، ماحول بنایا جائے کہ نواز شریف بے گناہ لگیں ۔ ویسے میرے خیال میں نواز شریف کی سیاست ختم ہو چکی ہے۔نواز شریف کیا ان کے سارے خاندان کے پاس لوگوں کے مسائل کا کوئی حل نہیں‘ ہاں اگر کوئی ’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘ سے معیشت‘ جمہوریت اور عوام کا دل جیت سکتا ہے تو اس کی خوش فہمی کو کیا کہیں۔ پاکستان میں غیر جمہوری روایات پھیل رہی ہیں۔سب سے بڑی خرابی صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ بنا کر اور پھر ازسر نو منتخب کرنے میں پنہاں ہے۔اس کے بعد بلوچستان میں حکومتوں کی تبدیلی‘ کشمیر میں عجیب و غریب حالات پیدا کر کے پی ٹی آئی کو کمزور کرنا‘ گلگت بلتستان میں حکومت کو بے بس کرنا‘ سندھ ہائوس میں منحرف افراد کو جمع کرنا‘ لاہور کے ایک ہوٹل میں حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ منتخب کرنا‘ سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں زور زبردستی‘ واقعات بہت سے ہیں‘ کچھ کا ذکر نہیں کیا تاکہ پڑھنے والے وہ حدت محسوس کریں جو لکھنے والے تک پہنچ رہی ہے ۔ بہت سال پہلے جب نواز شریف وزیر اعظم تھے۔میں نے ایک زرعی سائنس دان کا انٹرویو کیا۔اس نے باسمتی کی ایک ایسی قسم تیار کی تھی جو کلرزدہ زمین پر بھی کاشت ہو جاتی تھی۔وزیر زراعت کو فصل کا معائنہ کرایا گیا‘ اس کی کوالٹی کے سرٹیفکیٹس دکھائے گئے‘ ذائقہ چکھایا گیا۔وزیر موصوف نے مارکیٹ کی اجازت نہ دی۔ ڈاکٹر طارق چٹھہ ملک چھوڑ گئے‘ سنا ہے کئی سال سے آسٹریلیا میں زرعی تحقیق کر رہے ہیں۔ میرے ایک دوست ہیں۔بڑے ادارے سے ریٹائر ہوئے۔ انجینئر ہیں۔انہوں نے بجلی چوری کی نشاندہی کرنے والا میٹر تیار کیا۔ریڈنگ کے لئے میٹر ریڈر کی بھی ضرورت نہ تھی۔وفاقی وزیر پانی و بجلی کے سامنے عملی مظاہرہ کیا۔اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔وزیر پانی و بجلی کے داماد ساری ڈیل کیا کرتے تھے۔انہوں نے کمیشن کی بجائے کمپنی میں حصہ طلب کر لیا۔یہ کام آگے نہ بڑھ سکا۔ موجودہ کابینہ میں ایک وزیر ہیں۔ایک رپورٹر نے ان کے گھر تھری فیز بجلی کے تین کنکشن میٹر کے بغیر استعمال ہوتے پکڑ لئے۔ ان کے لوگ تصویریں بنانے والے رپورٹر کو پکڑ کر اندر لے گئے‘ ڈرایا دھمکایا۔جب رپورٹر خوفزدہ نہ ہوا تو لالچ دیا۔وہ بھی بے کار ثابت ہوا تو چھوڑ دیا۔ باہر آ کر دیکھا کہ محکمہ بجلی کی گاڑی کھڑی ہے اور نیا میٹر لگایا جا رہا ہے۔یہ وزیر اکثر لوگوں کو شرم دلاتا رہتا ہے۔ ملک اسلم صاحب نے ایک واقعہ سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا ہے۔واقعہ کیا پوری صورتحال لکھ دی ہے۔لاہور میں ایک بے نام سڑک پر کسی نے مہر غلام رسول روڈ کا بورڈ لگا دیا۔علاقے کے ایک بڑے چودھری سے یہ برداشت نہ ہوا۔اس نے دگنے سائز کا بورڈ بنا کر اس پر لکھوا دیا۔’’چودھری خادم حسین روڈ‘‘ مہر خاندان قدیمی ہے لیکن اب کمزور ہو چکا ہے۔سوچ بچار ہوا اور اگلی رات یہ بورڈ اکھاڑ کر دونوں طرف بڑے بڑے دو بورڈ لگوا دیے۔’’رب العالمین روڈ‘‘ ۔ ایک واقعہ نواز شریف کے دور کا ہے۔چونا منڈی میں گرلز کالج بنا تو خواجہ سعد رفیق کی والدہ بیگم فرحت رفیق اسے اپنے مرحوم شوہر خواجہ رفیق سے منسوب کرنا چاہتی تھیں۔نواز لیگ میں ایک لیڈر حاجی مقصود بٹ تھے‘ انہوں نے راتوں رات عمارت کے باہر بورڈ لگوا دیا۔’’گورنمنٹ نواز شریف کالج‘‘ اب کسی کی جرات تھی کہ نام بدلتا۔ اسحق ڈار کو میں اور میرے قارئین بھلے معیشت دان نہ سمجھیں‘ ہمیں ان کی صلاحیتوں پر لاکھ شکوک ہوں۔ پی ڈی ایم کی ساری حکومت کی نالائقی ثابت کرنے کے کتنے ہی دفتر ہمارے پاس کیوں نہ ہوں۔قانون دان آئین اور قانون کی کتابیں نکال کر بتاتے رہیں کہ یہ حکومت ’’منتخب ‘‘ کی تعریف پر پورا اترتی ہے نہ اس کے اقدامات ملک کو استحکام فراہم کر سکتے ہیں۔لوگ پی ڈی ایم دور میں معیشت کی تباہی کا جتنا بھی شور مچائیں‘ ڈنکی کے ذریعے ملک سے بھاگتے نوجوانوں کی لاشیں دکھائیں، قابل اور لائق لوگوں میں پھیلتی مایوسی سے آگاہ کریں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔حویلی پر بورڈ لگ چکا ہے۔ ’’یہ حکومت آئینی ہے‘‘ کرپشن میں لتھڑے لوگوں کی پیشانیاں جادوئی نیک نامی سے روشن کر دی گئی ہیں۔اسحق ڈار کے ہر دعوے کو سچ مان لیا گیا۔یہ دعویٰ بھی کہ ’’ملک کو نواز شریف ہی معاشی بحران سے نکال سکتا ہے‘‘۔