کسی سیاسی جماعت کو مشکل وقت میں کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے ،یہ سوال اہم ہے کہ ہماری جماعتوں نے اس پر کبھی دھیان نہیں دیا۔ صرف پیپلز پارٹی ہے جس نے مسئلے کو حل کرنے کی خاطر ایک طرف میثاق جمہوریت کیا اور دوسری طرف این آر او ۔ این آر او پر تنقید ہو سکتی ہے لیکن اگر کوئی انتظامی اداروں کی صلاحیت سے واقف ہو تو اسے پاکستان میں مقدمہ بازی وقت ضائع کرنے والا کام نظر آئے گا، اس کام میں کسی طاقتور کو سزا نہیں ہو سکتی ۔بس سیاسی طور پر اسے ہرایا جا سکتا ہے۔عمران خان ان قوتوں کے ساتھ تعلق استوار نہ کر سکے جو مشکل وقت میں فیصلہ ساز ہوتی ہیں۔ انہوں نے سب سے بگاڑی ،اس سے ان کی مقبولیت بڑھی لیکن وہ صائب مشورے سے محروم ہوتے گئے ۔اب دوسرے ملکوں سے مدد لینے کی مثالیں پہلے سے موجود ہیں لیکن اکیلا رہ جانے والا اپنی سپورٹ بیس کھو بیٹھتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں جمہوریت کے لازمی ادارے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لے کر پارٹیاں شہریوں کو حکمرانی کا انتخاب پیش کرتی ہیں، اپوزیشن میں رہتے ہوئے وہ حکومتوں کو جوابدہ ٹھہرا سکتی ہیں۔ جب شہری سیاسی جماعتوں میں شامل ہوتے ہیں، اپنا وقت رضاکارانہ طور پر دیتے ہیں، پیسے دیتے ہیں ، اپنے لیڈروں کو ووٹ دیتے ہیں تو وہ اپنے بنیادی جمہوری حقوق کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں شہریوں کی شرکت منفرد فوائد فراہم کرتی ہے، بشمول پالیسی کے انتخاب پر اثر انداز ہونے، سیاسی نمائندوں کو منتخب کرنے اور عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کے مواقع۔ تاہم کچھ ممالک میں سیاسی جماعتیں شہریوں کے حصہ لینے کے حقوق کا احترام نہیں کرتیں اور ووٹروں کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتیں۔پاکستان میں یہ چلن عام ہے ، اسی سبب عام آدمی پی ٹی آئی کی طرف مائل ہوا ۔ عالمی برادری متحرک، جوابدہ اور جامع کثیر الجماعتی نظام کی ترقی کی حمایت کرتی ہے جو شہریوں کو بامعنی انتخاب اور سیاسی شرکت کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس امر کو اہمیت نہیں ملی کہ مقبولیت کو بھی ریاست کے مفاد سے باہر جا کر شاٹ لگانے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ ایک نظر دوڑاتا ہوں کہ بے نظیر بھٹو نے 1977ء میں جب پہلا انٹرویو بشیر ریاض کو دیا تو وہ ایک انقلابی خاتون نظر آئیں۔وہ امریکہ کو عالمی ناانصافی کا ذمہ دار ٹھہرایا کرتی تھیں۔اس وقت ان کی عمر بمشکل پچیس چھبیس سال تھی۔انہیں لگتا تھا کہ وہ امریکہ کو پاکستان میں چیلنج دے سکتی ہیں۔ حقیقت کا ادراک کرنے میں زیادہ وقت نہ لگا ،وہ جلد یہ جان گئیں کہ قومی اور بین الاقوامی نظام کچھ ستونوں پر کھڑا ہے۔ان ستونوں میں کچھ کجی ہو سکتی ہے‘ نظام قابل اصلاح ہو سکتا ہے لیکن نظام سے ٹکرائو کسی صورت درست نہیں۔میر مرتضیٰ اور میر شاہنواز بھٹو کسی اور رستے پر چل پڑے ۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے بھائیوں سے راستہ الگ کر لیا۔ اس راستے نے انہیں بڑا سیاسی لیڈر بنایا۔بے نظیر بھٹو کے ساتھ کئی ایسے ساتھی تھے جو ریاست سے ٹکرانے کو تیار تھے۔امریکہ کے متعلق اپنے خیالات کو انہوں نے چھپا لیا لیکن تھرڈ ورلڈ کنٹریز اور سوشلسٹ فورم کے اجلاسوں میں مسلسل شرکت کر کے انہوں نے اپنی سوچ کو پھیلایا۔بین الاقوامی لیڈر اپنی سوچ سے ریاست کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔بے نظیر بھٹو امریکہ کے بدترین مخالف شمالی کوریا سے زوڈونگ میزائل کا ڈیزائن اور ٹیکنالوجی لے آئیں۔پاکستان میں اسے غوری میزائل کہا جاتا ہے۔ عمران خان کے سامنے یہ تجربہ تھا کہ بھٹو‘ شاہ فیصل اور معمر قذافی کو کس نے راستے سے ہٹایا۔ جنرل باجوہ نے ایک دو مواقع پر یاد دلایا کہ آپ جو کرنا چاہتے ہیں کریں لیکن امریکہ کو اپنے بیانات کے ذریعے ناراض نہ کریں۔او آئی سی کے مقابلے میں ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مل کر اتحاد بنانے کی آرزو کھلی۔نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کی خواہش پر ملائشیا میں بلائی گئی کانفرنس میں خود پاکستان شریک نہ ہو سکا۔ اس میں کیا شک ہے کہ عمران خان نواز شریف اور اس ایج گروپ کے تمام سیاست دانوں سے زیادہ مقبول ہیں۔ وہ اس لئے مقبول ہیں کہ انہوں نے ذاتی زندگی میں ایسی کامیابیاں حاصل کیں جنہیں قوم سراہتی ہے۔کرکٹ ورلڈ کپ، شوکت خانم کینسر ہسپتال اور لیبارٹری ‘ میانوالی میں نمل کالج۔ان کے حریف اس حساب سے تہی دامن ہیں لیکن کیا اپریل 2022ء میں جب ان کی حکومت ختم ہوئی تو لوگ ان کی حکومت کی کارکردگی سے مطمئن تھے؟ پاکستان کو ایک مدبر لیڈر کی ضرورت ہے‘ ایسا لیڈر جس کی نگاہ ہدف پر ہو لیکن اس کے ارادے کی بھنک کسی کو نہ ہو۔ایسا لیڈر جو سیاسی و معاشی استحکام لانے کا ہنر جانتا ہو۔روز جلسوں اور احتجاج سے لوگ تھک جاتے ہیں۔ایسے لوگ آسانی سے کسی سازش کا ایندھن بن جاتے ہیں۔9مئی کو جو ہوا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی نظریاتی تربیت میں ریاست اور اس کے اداروں کے مفادات کو اجاگر نہیں کیا گیا۔نوجوانوں کو جنون سکھایا گیا ، تنظیم نہ بن سکی ، ٹائیگر فورس بنی لیکن سیلاب میں یہ کہیں دکھائی نہ دی۔ عمران خان کے بقول امریکہ نے ان کی حکومت ختم کرائی۔انہوں نے پی ڈی ایم کو امپورٹڈ حکومت کہا۔90فیصد پاکستانیوں نے یقین کیا کہ ایسا ہی ہوا۔پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی کوئی اچھی ساکھ ہوتی تو شائد ایسی سوچ نہ پھیلتی۔ حکومت جانے کے بعد عمران خان کے پاس کئی مواقع تھے جب وہ اپنی مقبولیت کی طاقت سے نظام کے ساتھ جڑ جاتے۔سبھی نے مشورہ دیا کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلی نہ توڑیں۔اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ جس نے دیا وہ شاید سب سے قریبی مشیر تھا۔عمران مسلسل غلط فیصلے کر رہے ہیں ۔طاقت کو دانشمندی کے ساتھ استعمال کرنا ہی سیاسی لیڈر کا کام ہوتا ہے ۔پی ٹی آئی اور خود عمران خان کو یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ کیا ہر غلطی کو مقبولیت سے دھونے کی کوشش نہیں کی گئی ۔دوسرے ملک مدد کے ساتھ کچھ وعدے لیتے ہیں ، آج عمران خان کی مدد پر آمادہ امریکہ کل ان سے کیا مانگ سکتا ہے ؟