سنبھال رکھیں کتاب کلچر ، اُجال رکھیں کتاب کلچر کمال کرنے کا عزم ہے تو ، کمال رکھیں کتاب کلچر ہم ایک عرصے سے دیکھتے آ رہے ہیں کہ جب بھیکسی خوب صورت خاتون، اَلھڑ مٹیار، طرح دار زنانہ افسر کی کوئی جیسی تیسی کتاب کا منصۂ شہود پہ ورُود ہو جاتا ہے تو ناقدینِ شعر و ادب کے حلقے میں ہلچل سی مَچ جاتی ہے۔ کئی مہان استاد، جو بظاہر زندگی کے اکھاڑے سے کنارہ کشی اختیار کر چکے ہوتے ہیں، اچانک کمر کس کے، پیٹھ ٹھونک کے، پاؤں جوڑ کے اور چھاتی چَوڑ کے میدان میں اُتر آتے ہیں۔ ایسے عالَم میں ہمارے بعض کلین شیو ناقدین کا قلم تو مونچھیں مروڑ کے کارزارِ قرطاس پہ موجیں مارنے لگتا ہے اور ستائش و گرویدگی کی شاہراہِ بہجت پہ ایسا سرپٹ بھاگتا ہے کہ ہم سچ مچ کی مونچھوں والے دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں لیکن اگر کوئی مروج زمینی صورتِ حال اور محدود ذہنی دائروں کو وسعت عطا کرتی ، مخصوص ذہنی آماج گاہ میں اصل حقائق کے در وا کرتی کوئی فکر افروز کتاب نظر آ جائے تو یار لوگ اس سے بچ نکلنے کی سبیلیں ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ ہمیں آج ایسی ہی دو کتب کا سامنا ہے، جو ہماری یبوست زدہ تاریخ اور نصاب مارکہ تنقید کے بھیتر سے نئے زاویے سامنے لاتی ہیں۔ ان میں پہلی کتاب تو ڈاکٹر فاروق عادل کی ’’ہم نے جو بھُلا دیا‘‘ ہے، جس میں تاریخ پاکستان کے گم شدہ بلکہ گم کردہ اوراق کی دلائل و براہین کے ساتھ نشان دہی کی گئی ہے۔ ہمارا خیال بلکہ مطالبہ بلکہ اِصرار ہے کہ وطنِ عزیز کی جوان ہوتی باشعور نسل کو مزید دھوکے میں رکھنے کی بجائے، اب ایسی ہی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ان کو پتا چل سکے کہ قائدِ اعظم کی قدرتی یا قدرت رکھنے والوں کی مسلط کردہ وفات کے بعد ہر دور میں ہمیں کیسے کیسے مفاد پرستوں، عناد پروروں اور طالع آزماؤں سے واسطہ پڑا کہ جنھوں نے قومی ترقی کے سفر کو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھایا، بقولِ شاعر: ہمیں جو بھی دشمنِ جاں ملا ، وہی پختہ کارِ جفا ملا نہ کسی ضرب غلط پڑی ، نہ کسی کا وار خطا گا اس کتاب میں ڈاکٹر فاروق عادل ایک ایسے محبِ وطن اور دردِ دل رکھنے والے پاکستانی کے رُوپ میں سامنے آتے ہیں، جس کی بنا پر اس کتاب کو تاریخ سے اگلے درجے یعنی ’تالیخ‘ کا نام دیا جا سکتا ہے کہ اس میں انھوں نے ہر پاکستانی حکمران کے دورِ حکومت میں در آنے والے تلخ حقائق کو دلیری سے طشت از بام کر دیا ہے۔ آج تک ہماری بدقسمتی یہی رہی ہے کہ ہماری صحافت ذرا سی چمک دیکھ کے ہیجڑہ بن جاتی ہے، پھر ان کی خوشحالی، ملک و قوم کی بدحالی پہ منتج ہوتی ہے۔ وہ کالم نگار اور صحافی کہ جن کے لہجے کا طنطنہ کبھی سنبھالے نہیں سنبھلتا، وظیفے کا راطب منھ کو لگتے ہی ان کی شخصیت پچکی ہوئی اور لفظوں کی منمناہٹ بغیر کانوں کے سنائی دینے لگتی ہے۔ انھی کی ہلاشیری یا خاموشی سے اُن بدبختوں نے سڑکیں، عمارتیں، ادارے، کرکٹ، ضمیر تک بیچ دیے یا گروی رکھ کے عوام پہ نئے نئے ٹیکس لگا دیے۔ انھی چمک قبول کر لینے والوں ہی کی وجہسے سچ کا عَلم اٹھانے والے عتاب میں آ جاتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یہی مفاد پرست قلم فروش، عتاب زدگان کے بالواسطہ قاتل یا ذمہ دار ہیں۔ لالہ بسمل سچ کہتا ہے: صحافی سے بنتا ہے کیسے صحافہ لفافہ ، لفافہ ، لفافہ ، لفافہ ڈاکٹر فاروق عادل نے نہایت دیانت داری اور دلبری سے غلام محمد سے لے کے غلام ابنِ غلام حکمرانوں، معیشت کی تباہی میں حصہ دار بننے والے تاجروں، برآمد کنندگان، ذرائع ابلاغ، مذہبی طبقات، اقتصادی ماہرین اور نج کاری کے نام پر کوڑیوں کے بھاؤ ملکی اثاثوں پر قبضہ جمانے والے کہ جنھیں اعلیٰ عدلیہ کی کمک بھی حاصل ہوتی ہے،کا کچا چٹھا ثبوتوں کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ انھوں نے سندھی مہاجر کشمکش، کشمیر کی کشیدگی، سیاست دانوں کے کمزور عقائد اور شاطرانہ چالوں کو عمدگی سے طشت از بام کیا ہے۔ ذرا چند تحریروں کے عنوانات ملاحظہ ہوں: واشنگٹن براستہ ماسکو، تاشقند کی بلی، انصاف کا قتل، لہولہان ایوان، کیا یہ کشمیر کا درد تھا؟ لٹنا سجی سجائی دُکان کا، 22 نہیں31 خاندان… تازہ تحقیق کے مطابق جن کی تعداد سو تک پہنچ چکی ہے اور انھی سو خاندانوں کے مہیب محل، کروڑوں خاندانوں کے جھونپڑوں کی تازہ ہوا روکے بیٹھے ہیں۔ حال ہی میں لمز میں چند ذہین طلبا کے سادہ سے سوالات سے ہمارے وزیرِ اعظم کی گھِگھی بندھتے کل عالم نے دیکھی، سمجھ نہیں آتی کہ لمز کے طلبا کیمحدود سے سوالات پہ کانپنے والے حکمران کل کو لم یزل کے لامحدود سوالات کا سامنا کیسے کریں گے؟ اس سلسلے کی دوسری کتاب پروفیسر جمیل احمد عدیل کے دو درجن تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’تفکیر‘ ہے۔ کتاب کے نام میں سہل پسند قاری کو پروف کی غلطی نظر آئے گی، ٹہل پسند قاری کو نیت کی، جبکہ جہل پسند قاری کو دونوں کی۔ مشاہدہ ہے کہ حضرت مصنف کو جب تک مشکل نام نہ سو جھ جائے، کتاب پریس کا رُخ نہیں کرتی۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ جس مصنف کے بچوں کے نام مہلب، سمیط اور میرام ہوں گے، اس کی کتاب ثغور، رشقار یا تفکیر ہی ہو سکتی ہے۔ میرزا مُفتہ کا کہنا ہے کہ اس پر بھی خدا کا شکر ادا کریں کیونکہ یہ نام یہ فتکیر، کتفیر، رفتیک یا فرتیک بھی ہو سکتا تھا، معنی تو کچھ نہ کچھ نکل ہی آنے تھے۔ ’تفکیر‘ ایسا عجیب نام ہے کہ اس کی ’ت‘ اڑا دیں تو ڈھنگ سے ’فقیر‘ بھی نہیں بنتا۔ لالہ بسمل کہتا ہے کہ اگر لکیر کا فقیر والے محاورے کو تصغیر کی کٹھالی میں اکیس دن تک خالد خاں کھرل کریں تو سوکھنے کے بعد شاید اس کی صورت کتاب کے نام جیسی نکل آئے۔ ویسے ایک امکان یہ بھی ہے کہ اس علامت پسند مصنف نے یہ نام علامت کے طور پر استعمال کیا ہو۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلے کہ جس طرح شناختی کارڈ والی ’’نادرہ‘‘ کسی لڑکی کا نہیں بلکہ نیشنل ڈیٹا بیس والے کسی ادارے کا نام ہے۔ اسی طرح اس لفظ سے بھی ’’ت‘‘ سے تہمینہ ’’ف‘‘ سے فضیلہ ’’ک‘‘ سے کائنات ’’ی‘‘ سے یُمنہ اور ’’ر‘‘ سے رابعہ بنتی ہو۔دوستو میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ کتاب ملک کے معروف اور مصروف نقاد، افسانہ نگار، استاد، دانشور جناب جمیل احمد عدیل کی فکر اور مطالعے کا نچوڑ ہے، جس میں انھوں نے فکشن، شاعری، مزاح، تنقید، تصوف جیسے متفرق موضوعات کو اپنے جادوئی اسلوب سے جگمگا دیا ہے۔ یہ ان کی 34 ویں کتاب ہے۔ غالباً 34 سال ہی انھیں تدریس سے وابستہ ہوئے ہو چکے ہیں۔ کسی سرکاری،درباری قسم کے ایوارڈ کی ابلہی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر ان کا فرسِ تخیل و تدبر و تکلم و تعلم و تصنف سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ جمیل احمد عدیل سے ہمارے تعلق کا سفر اگرچہ یارِ غار سے یارِ غور تک آ پہنچا ہے لیکن یہ بات ہم آپ کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ وہ نہ صرف صاحبِ اسلوب، سلطان اللغت، ثابت القلم، صائب الرائے بلکہ ثیاب الخیال بھی ہیں۔ کسی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے اس کی روح نچوڑ لیتے ہیں۔ اس کتاب میں ایسی ہی روحوں کا میلہ لگا ہوا ہے۔