گزرے وقتوں میں لوگ ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے تھے مگر آج 2023 میں ایک دوسرے کا بلڈ پریشر بڑھا کر چلے جاتے ہیں۔ معاشرتی روگ رویے اتنے پریشان کن ہو چکے ہیں کہ خدا کی پناہ لوگوں کو سمجھنا بہت ہی مشکل ہوگیا ہے۔ پل میں تولہ پل میں ماشہ۔ آج سے تقریباً 30 سال قبل ہی دیکھ لیجئے۔ رشتوں میں مٹھاس تھی۔ لوگوں کے پاس اتنی دولت نہیں ہوتی تھی مگر بیمار دلوں کو بہلانے کا ایک فن آتا تھا۔ شام کو بیلی یاروں کی محفل سجا کرتی تھی لوگ اپنا درد دوستوں کے ساتھ شیئر کرکے فکر سے آزاد ہو جایا کرتے تھے۔ احباب مخلصانہ صلاح مشورہ بھی دیتے جو سونے کے بھاؤ کے مترادف ہوا کرتا تھا کیونکہ اس دور میں لوگوں کو یہ بات ازبر تھی کہ مشورہ دینے والا امانت دار ہوتا ہے۔ کئی دوست تو بیٹھے بیٹھے مسائل کے حل کی پیش کش بھی کر دیا کرتے تھے۔ کاش وہ وقت پھر سے لوٹ آئے جب لوگ اتنے شاطر نہیں تھے۔ دلوں میں کھوٹ نہیں تھی۔ نام نہاد اسٹینڈرڈ و اسٹیٹس کا اتہ پتہ نہیں تھا۔ اگر ہم چبھتے لہجوں کو خیر آباد کہیں اور برداشت کرنا شروع کریں تو یقیناً ہمارا معاشرہ بہتری کی راہ پر گامزن ہونا شروع ہو جائے گا۔ سخت رویے بات تو منوا لیتے ہیں مگر دلوں میں فاصلے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر معاشرے میں کسی کے ساتھ بات کو واضح کرنا ہے تو دلیل اور تہذیب کے پیرائے میں کیجئے۔ ہمارے ہاں مکالمہ کو مجادلہ میں تبدیل ہوتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ ٹو دی پوائنٹ بات کریں۔سلجھی ہوئی شخصیت ہونے کا ثبوت دیں۔ اکثر و بیشتر گلی، محلہ و بازار کی نکڑ پر کھڑے تین چار بزرگ یا نوجوان کسی موضوع پر لاحاصل بحث کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ فلاں شخص بہت ہی بیبا بندہ ہے۔ جب آپ اس سے ملیں گے تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے اس کی گفتگو میں وہ شیرینی اور کشش ہے کہ لوگ کچھے چلے آتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ خوش اخلاقی کو سبھی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر بذات خود ہوتے نہیں۔ہم خوش اخلاقی سے روگردانی کرتے ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد بھی لوگ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں تو اپنے آپ کو مسکراہٹ اور مٹھاس سے بھرے لہجے سے مزین کریں۔ حقیقتاً چاہتے ہیں کہ اچھا معیار قائم ہو تو اچھے بننے کی سعی کیجئے۔ایسی تگ ودو نہیں ہو سکتی تو کم از کم الفاظ کے چناؤ میں مہارت شروع کریں۔ معاشرہ بہترین تعلقات کے امتزاج سے ہی نمو پاتا ہے، لہذا تیکھے جملوں کو گفتگو میں شامل نہ کریں کہ کسی کی دل آزاری ہو۔ ہو سکے تو لوگوں کے دلوں کو خوش کرنے کے لیے منافقت سے پاک چھوٹی موٹی اداکاری ہی کر لیجئے۔ جب آپ کو لگے کہ کوئی دل سے مشورہ دے رہا ہے۔ لیکن آپ اس مشورے سے متفق نہ ہوں تو اسے مسکراہٹ سے کہیں کہ "بہت شکریہ آپ نے بہت ہی بہترین مشورہ دیا ہے۔"اگر ہمسایہ یا دوست احباب میں سے کوئی دھن دولت والا نہ ہو۔ اسے احساس ہرگز نہ ہونے دیں بلکہ معاشرے میں اس کی آبرو بچائیے، پردہ رکھیے۔ اس کی کسی بھی چیز کو دیکھ کر کہیں" ارے یہ تو بہت ہی منفرد و سٹائلش ہے۔ میں تو تمہاری کلر کولیکشن سے بیحد متاثر ہوں۔ تمہاری چوائس بہت اعلی ہے۔ کم خرچ بالا نشینی تو کوئی تم سے سیکھے"۔ یقیناً اس قسم کے جملوں سے اس کے احساس کمتری پر کافی حد تک ضرب لگے گی۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب آپ کی والدہ یا بیوی آپ کے لیے کوئی اسپیشل کھانا بنائے لیکن آپ کو اتنی بھوک نہ ہو یا پھر آپ کو وہ بد مزہ لگ رہا ہو، لیکن پھر بھی کہیں "بھئی واہ آج تو کھانے کا مزہ آگیا۔" کھانا کھاتے ہوئے کچھ اداکاری کیجئے کہ جیسے کھانا بہت ہی لذیذ ہے۔جب کوئی بچہ اپنی پرفارمنس یا رزلٹ دکھائے، اور آپ کو محسوس ہو کہ یہ مارکس اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ لیکن پھر بھی آپ کہیں "واہ جی واہ آپ نے تو کمال کر دیا ہے۔ اس پر تو آپ کو انعام ملنا چاہیے۔" جب کوئی مایوسی کا شکار ہو اور اپنی زندگی کے مسائل بتا رہا ہو تو اس کو اتنی توجہ اور غور سے سنیے جیسے آپ دنیا کا بہت بڑا راز جان رہے ہیں۔ جب کوئی فیملی ممبر یا دوست، رشتہ دار کچھ روز پریشان اور اکیلا اکیلا نظر آئے تو اس کے پاس کوئی تحفہ لے جائیں اور کہیں "یہ تحفہ سپیشل آپ کے لئے لے کر آیا ہوں۔" اور پھر کچھ وقت مکمل فوکس ہو کر اس کے ساتھ گزاریے۔ اگر کوئی شخص بار بار ناکام ہو چکا ہو تو کبھی اس کی چھوٹی سی کامیابیوں پر کچھ زیادہ ہی مبارکباد دیجئے۔ اس کی بے جا تعریفیں کیجیے۔ ایسا تاثر دیں جیسے آپ خود کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسے جملوں اور اداکاری کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ آپ چاہ کر بھی اس کی طاقت کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ انہی رویوں سے معاشرہ سیاسی، معاشی، ثقافتی لحاظ سے ترقی کی جانب گامزن ہوتا ہے کیونکہ جب مثبت رویوں کی بنیاد پر عوام میں اتحاد و یگانگت ہوگی تو سیاسی مسائل میں لوگ ایک دوسرے کو پر خلوص مشورہ دیں گے، تجارت ا و رلین دین کے معاملات میں سختی نہیں برتیں گے۔ نتیجتاً معاشرتی امور تیزی اور بخوبی نمٹیں گے۔