صوبائی انتخابات میں کسانوں ، دلتوں، دوسرے پسماندہ طبقوں اور اقلیتوں نے مل کر ان کو شکست دی تھی۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے مئی میں عام انتخابات کے پیش نظر وہ آخری ترپ کا پتا یعنی نیشنلزم پر بحث کروا کے اور ہندوئوںکو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش میں تھے، جس کا موقعہ پلوامہ نے فراہم کردیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ جولائی 1995میں جنوبی کشمیر کے پہلگام پہاڑوں سے 6مغربی سیاحوں کا اغوا اور گمشدگی تھا۔ جس نے بیک جنبش ایک سیاسی تحریک آزادی کو مغربی دنیا میں کٹہرے میں لا کرکھڑا کر کے رکھ دیا۔ عموماً تحریک کشمیر کے حوالے سے اکثر مغربی ممالک نرم گوشہ رکھتے تھے۔ مگر یہ واقعہ نہ صرف مغربی ممالک کی اخلاقی اور سفارتی ہمدردیاں ختم کرنے کا باعث بنا، بلکہ رفتہ رفتہ اس واقعہ کو بنیا د بنا کرکشمیر میں جاری عسکری تحریک کی تاروں کو بھی بین الاقوامی دہشت گردی سے جوڑنے کی بھر پور کوششیں ہوئیں۔دو برطانوی صحافیوں ‘ ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک کی تحریر کردہ The Meadow نامی تفتیشی کتاب نے الفاران کے ذریعے اغوا کئے گئے پانچ مغربی سیاحوں کے معاملے پر سے پردے اٹھائے ، تو بھارت کے کسی ادارے کو ابھی تک اس کتاب کے مندرجات کی تردید کرنے کی جراٗت نہیں ہوئی۔ اغواکئے گئے سیاحوں میں سے ایک ناروے کے ہانس کرسٹیان اوسٹرو کی سربریدہ لاش پائی گئی۔کتاب کے مصنفین نے بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالسس ونگ کے دو سابق سربراہوں کے حوالے سے یہ ہوشربا انکشاف کیا، کہ اغوا کے اس واقعہ کو جان بو جھ کر عالمی برادری میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے بھرپور استعمال کیا گیا۔مصنفین کا کہنا ہے کہ ان مغربی سیاحوں کو بچایا جاسکتا تھا کیوںکہ را (R&AW)کے اہلکاراغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں ا ور اغواکاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔جب ایک خاتون کوہ پیما، ناروے کے سیاح کے اغوا کی اطلاع دینے بھارتی فوج کے راشٹریہ رائفلز کے کیمپ پہنچی، بجائے داد رسی کے، اسکی عصمت دری کی گئی۔اغواکاروں کی نقل و حرکت کی اطلاع پردینے پر مامور جموں و کشمیر پولیس کے ایک مخبر ’ایجنٹ اے‘ کوفوج نے عسکریت پسند کی لیبل لگا کر قتل کردیا، تاکہ اطلاع کا یہ سرچشمہ یہ بند ہوجائے۔ دونوں برطانوی صحافیوں نے شواہد کی بنیاد پر لکھا ہے کہ بھارت نے سیاحوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا، تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے۔بھارت نے اس واقعہ کو پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے موقع غنیمت جانا اور انڈین انٹیلی جنس اور آرمی کے اندر موجود سخت گیر عناصربات چیت یا کارروائی کرکے یرغمالوں کو بچانے کے بجائے اس وقت کے وزیر اعظم نرسمہا راو کے اس ہدایت نامے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے تمام حربے استعمال کرنے میں مصروف ہوگئے ‘ کہ دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان سرکاری طورپر دہشت گردی کی اعانت کررہا ہے۔ جب الفاران نے مغربی سیاحوں کو چھوڑا تو انٹیلی جنس اور فوج کے حمایت یافتہ تائب جنگجووں نے انہیں اپنی تحویل میں لے لیااور راشٹریہ رائفلز کے کیمپ میں ان کو رکھ کر بعد میں ہلاک کر دیا گیا۔ اینڈرین لیوی کے مطابق دسمبر 1999میں انڈین ایرلائنس کے طیارہ IC 814 کے اغوا کے معاملے میں خفیہ ایجنسی کے ایک افسر نے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو دہشت گردوں کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے بجائے مسافروں سے بھرے طیارے کو اڑا دینے کا مشورہ دیا تھا۔تاکہ پاکستان کو اس واقعہ کیلئے مکمل طور پر بدنام کیا جائے۔ یہ افسر آجکل انتہائی کلیدی عہدے پر فائز ہے۔ اسی طرح نومبر 2008کو جب اقتصادی مرکز ممبئی پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ ہوا، تو تقریبا سبھی خفیہ اداروں چاہیے امریکی سی آئی آے ہویا بھارتی ایجنسیاںجیسے کہ اینٹلیجنس بیورو، ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ(رائ) حتیٰ کی ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی اس حملے کی پیشگی اطلاع تھی۔ اڈریین لیوی اور کیتھی اسکارٹ کلارک نے اپنی کتاب دی سیج (The Siege) میں انکشاف کیا ہے، کہ ایک سال کے عرصے کے دوران مختلف مواقع پر126یسی اطلاعات ان اداروں نے موصول کی تھی۔ جن میں ان حملوں کی پیشن گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے ذریعے استعمال کئے جانے والے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔آخر اتنی واضع خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارتی اسکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔ یہ سوال اس لئے بھی اہم ہے کہ دو سال کے تعطل کے بعد جولائی2006ممبئی ٹرین دھماکوں اوربعد میں سمجھوتہ ایکسپریس پر ہوئے حملوں کے بعد دونوں ممالک تعلقات کو معمول پر لانے کی سعی کر رہے تھے۔جس وقت ممبئی پر قہر برپا ہوا عین اسی وقت پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی بھارت میں اپنے بھارتی ہم منصب موجودہ صدر پرناب مکرجی کے ساتھ نئی دہلی کے حیدر آباد ہاوس میں محو گفتگو تھے اور بھارتی سیکرٹری داخلہ مدھوکر گپتا پاکستان میں تھے۔ خفیہ معلومات اس حد تک واضع تھیں کہ اگست 2008 میں جب ممبی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ابیل علاقہ کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کے بطور چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اسکے طریقہ کار پر بھی معلومات تھیں۔ان اطلاعات کا ماخذ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی آے تھی۔ اسی طرح لشکر طیبہ کے ٹریننگ کیمپ میں موجود آئی بی کے ایک مخبر کی بھی پل، پل کی معلومات تھیں۔ جس میںحملہ کیلئے تاج ہوٹل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس افسر نے فورا تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ستمبر2008میں اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل میں دھماکہ اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات کے حصول کے بعد پاٹل نے نوگھنٹوں تک تاج ہوٹل کی اسکیورٹی کے ساتھ ایک ریہر سہل کی، اور کئی دروازے بند کروائے ، علاوہ ازین ٹاور کے پاس ایک سکیورٹی پکٹ بھی نصب کی۔ ان انتظامات کے بعد جب پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔ تاج انتظامیہ نے نہ صرف حفاظتی بندیشین ہٹا لیں، بلکہ سیکورٹی پکٹ بھی ہٹوائی کیونکہ اس پر معمور حفاظتی اہلکاروں نے دوران ڈیوٹی ہوٹل کچن سے کھانا مانگنا شروع کردیا تھا۔ دوسری طرف خفیہ اطلاعات کے باوجود بھارت کی سیکورٹی انتظامیہ کی لاپروائی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب کمانڈو دستوں یعنی نیشنل سیکورٹی گارڈز (این ایس جی) نے دہلی سے متصل ہریانہ میں اپنے ھیڈکوارٹرسے حملوں کے20 منٹ بعد ہی نقل و حرکت شروع کی تو کابینہ سیکرٹری اور بعد میں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سیکرٹری نے فون کرکے ان کو متنبہ کیا کہ احکامات کے بغیر وہ نقل حرکت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔اس تنبیہ کے 70منٹ بعد وزارت داخلہ نے انکو بتایا کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے این ایس جی کی مدد مانگی ہے اسلئے وہ فورا ممبئی روانہ ہوجایئں۔ مگر ایر پورٹ جاکر معلوم ہوا کہ بھارتی فضائیہ کا ٹرانسپورٹ طیارہ ابھی تک کئی سو کلومیٹر دور چندی گڈھ میں ہے۔ کمانڈو یونٹ کے سربراہ جیوتی دتہ نے جب خفیہ ایجنسی راء سے انکا خصوصی طیارہ مانگا تو پتہ چلا کہ اسکا عملہ غائب ہے اور جہاز میں ایندھن بھی نہیں ہے۔آدھی رات کے بعد جب دستہ بالآخر طیارہ میں سوار ہوا توان کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے چند افسران بھی ان کے ہمراہ جارہے ہیں اسلئے ان کا انتظار کیا جائے۔ بالآخر جب طیارہ اگلے دن سویرے ممبئی پہنچا تو افسران کو لینے کیلئے چمچاتی اور لال بتی والی گاڑیاں طیران گاہ پر حاضر تھیں مگر کمانڈو دستوں کو لیجانے کیلئے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھا۔ اس پورے وقفے کا دوران تاج اور اوبرائے ہوٹلوں نیز یہودی مرکز پر جنگجووٗں نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا تھا اور سینکڑوں افراد لقمہ اجل ہوچکے تھے۔لگتا تھا کہ آپریشن کو جان بھوج کر طوالت دی جا رہی ہے، تاکہ اس کا بھر پوفائدہ اٹھایا جا سکے۔ اسی طرح گو کہ 2013 میں افضل گورو کو پھانسی دینے کے ساتھ 13 دسمبر 2001 کوبھارتی پارلیمنٹ پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کا ایک باب بند ہوگیاہے لیکن اس سے جڑے کئی بڑے سوال آج بھی جواب کے منتظر ہیں۔ 1997 میں افضل نے کشمیر میں دوائوں اور سرجیکل آلات کی ایک چھوٹی سی دکان کھولی تھی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ عا م زندگی بسر کرنا چاہتے تھے لیکن سیکورٹی فورسیز نے ان کی زندگی اجیرن کردی تھی۔ سیکورٹی فورسز کی طرف سے ان پر جاسوس بننے کے لئے مسلسل دباو ڈالا جاتا رہا۔جب افضل اس کے لئے آمادہ نہیں ہوئے تو ان پر اذیتوں کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ 22 ویں راشٹریہ رائفلز کے میجر رام موہن رائے نے ان پر اذیتوں کی انتہاکردی تھی۔ اس کے بعد جموں و کشمیر کے اسپیشل آپریشن گروپ نے انکوتحویل میں لیا۔ اس کے کیمپ میں ان کی ملاقات محمد اور طارق نامی دو افراد سے کرائی گئی اور ان کو حکم دیا گیا کہ ان کو دہلی لے جانے کا بندوبست کرنا ہے اور اس کے بعد اس سے کوئی اور کام نہیں لیا جائیگا۔ عدالت نے دو افراد کو لانے کا ان کا اعترافی بیان تو قبول کرلیا تاہم اس بات کو یکسر نظر انداز کردیا کہ ان دونوں سے ان کی ملاقات کہاں ہوئی تھی اور اس معاملے میں پولیس افسر دیوندر سنگھ کا کیا رول تھا؟ یہی حال کچھ دیگر ایسے واقعات کا بھی ہے۔کیا یہ سبھی فالس فلیگ آپریشن تھے؟ کیا ان کا مقصد صرف پاکستان کو عالمی منظر نامے میں کٹہرے میں کھڑا کرنا تھا؟ کیا اس طرح کے پلان بنانے والوں نے ہٹلر اور اس کے پولینڈ پر حملہ کرنے کی سازش کے انجام پر غور نہیں کیا تھا؟ اگر پاکستان کے ساتھ چھیڑی گئی جنگ ہاتھ سے نکل گئی، تو جنوبی ایشیا کا پورا خطہ تباہ و برباد ہونے کا اندیشہ ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ اس دونوں ملکوں کے درمیان تنازعات خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے پر امن حل ڈھونڈیا جائے، جو فریقین کو قابل قبول ہو، تاکہ جنگ بازوں کو ایسے فالس فلیگ آپریشن کرنے سے باز رکھا جائے۔