وہ کراچی میں امن و سکول کے دن تھے۔امیدیں زندگی کی صعوبتوں پر حاوی تھیں آج جب میں سوچتا ہوں کہ آزادی کے بعد ابتدائی سالوں میں وہ کون سی قوت تھی جو انتہائی کم وسائل اور بے سروسامانی کے عالم میں قوم میں آگے بڑھنے کا جذبہ اور ولولہ پیدا کئے ہوئے تھی ہر ایک کے دل میں ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے کا جوش تھا۔ ان لوگوں کی زندگیوں پر نظر ڈالیں جنہوں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر اپنے نئے ملک ہجرت کی تھی۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیس زندگیاں معمول پر آنے لگیں، شروع کا زندہ دلانہ جوش و خروش ماند پڑنے لگا۔ لوگوں کو مستقبل میں آنے والے دنوں میں ممکنہ آزمائشوں کا احساس ہونے لگا لیکن یہ احساس جاگیزیں رہا کہ وہ اپنے وطن اور اپنی دھرتی پر ہیں اور انہیں ہمیشہ یہیں رہنا ہے یہ وہ وقت تھا کہ دفتر خارجہ موہٹہ پیلس میں واقع تھا بعد میں یہ عمارت محترمہ فاطمہ جناح کی رہائش گاہ بن گئی اور آج کل یہ عجائب خانہ ہے۔قائد اعظم کی وفات ایک ایسا سانحہ تھا جس نے نوزائیدہ ملک خوشیاں ماند کر دیں۔ پوری قوم غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہوئی لیکن یہ شہید ملت خاں لیاقت علی خان کا حوصلہ اور ہمت تھی کہ انہوں نے قوم کو افسردہ دلی کے ماحول سے باہر نکالا۔لیاقت علی خان کی شہادت سے ایک اور دھچکا لگا ۔آزادی کے بعد ابتدائی دو دہائیوں میں ایوب خان کے دور کو اس لئے یاد کیا جاتا ہے کہ اس میں بہت سے غیر جمہوری اقدامات کے باوجود عمومی طور پر استحکام رہا جس کے سبب کراچی میں معاشی اور اقتصادی ترقی کے حوالے سے غیر معمولی سرمایہ کاری ہوئی ،بے شمار صنعتی یونٹس لگائے گئے اور اس ترقی کے سفر نے سماج میں ایک نیا اعتماد پیدا کیا امپورٹ اور ایکسپورٹ بڑھیں ۔ایوب خان کے دور میں ترقی کا پہیہ صنعتی شعبے سے زرعی شعبے تک پھیل گیا اور یہ تبدیلی پورے ملک میں محسوس کی جانے لگی لیکن اس کا مرکز کراچی تھا۔کراچی آج بھی اپنی تمامتر محرومیوں کے باوجود سب سے زیادہ پرکشش شہر ہے۔ایوب خان کے دور میں کئی نئی بستیاں آباد ہوئیں۔ ناظم آباد‘ پی آئی بی کالونی ،لیاقت آباد اور دوسرے کئی علاقے نئی تعمیرات کے سبب زیادہ پررونق ہو گئے ۔ خاص طور پر ناظم آباد اور پی آئی بی میں آبادی کی اکثریت متوسط طبقے پر مشتمل تھی اس زمانے میں گاڑیاں بہت کم تھیں زیادہ تر لوگ بسوں میں سفر کرتے تھے ۔صدر میں سینٹ پیٹرک‘ کراچی گرامر سینٹ پال اور سینٹ جوزف جیسے مشہور تعلیمی ادارے تھے ڈی جے کالج اور آدم جی سائنس کالج کی تاریخ بھی پرانی ہے اسی طرح ڈو میڈیکل کالج اور این ای ڈی انجینئرنگ کالج کی جڑیں بھی خاصی پرانی تھیں یہ ایسی ہی قدیم درسگاہیں تھیں جیسے لاہور میں گورنمنٹ کالج‘ ایچی سن یا کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج۔لیکن زندگی کے مختلف شعبوں میں ترقی کے حوالے سے کراچی پاکستان میں سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کرنے والا شہر تھا یہ مغربی پاکستان کا واحد پورٹ سٹی اور محل وقوع کے اعتبار سے اپنے اندر ترقی کے تمام لوازمات رکھتا تھا اس لئے اگر آپ اس شہر کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ روشن خیالی اور ترقی پسندی میں بھی سب سے آگے تھا اور ابتدا سے آج تک پاکستان کے فنانشل کیپٹل کہلاتا ہے۔۔یہ ایوب خان کے اقتدار کے آخری سال تھے کراچی میں ثقافتی میلے کا انعقاد ہوا اس کا سہرا جناب فیض احمد فیض کے سر سجا اس وقت فیض صاحب کراچی کے نئے آباد ہونے والے علاقے سوسائٹی میں رہا کرتے تھے۔فیض صاحب اس دور میں روس کے دورے سے واپسی پر یہ سوال اٹھاتے آئے تھے کہ درحقیقت ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہماری ثقافت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ان کے ذہن میں یہ تدبیر و تجویز آئی کہ پاکستان میں سرکاری سطح پر وزارت ثقافت قائم کر دی جائے۔ فیض صاحب کے پاس اس وقت کوئی سرکاری عہدہ نہیں تھا لیکن وہ سرکاری حلقوں میں بڑا اثرورسوخ رکھتے تھے اور وقت کے سب سے بڑے شاعر تھے اور وہ سرکاری افیسران کے علاوہ علم و ادب اور حلقہ دانش میں منفرد مقام رکھتے تھے بڑے بڑے لوگ ان کے حلقہ احباب میں شامل تھے ان میں جناب الطاف گوہر‘ قدراللہ شہاب‘ ممتاز مسعود اور ممتاز مفتی جیسے نام شامل تھے۔جمیل الدین صاحب بھی اس حلقہ احباب کے اہم رکن تھے اور کراچی میں ادب و ثقافت کی ترقی و ترویج میں بڑی سرگرمی سے حصہ لے رہے تھے بس پھر کیا تھا فیض صاحب اپنے اور اپنے دوستوں کے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے وزارت ثقافت قائم کرانے میں کامیاب ہو گئے اور پھر کراچی میں اس دور میں وزارت ثقافت کی زیر نگرانی کشمیر روڈ کے متصل چائنا گرائونڈ میں اس ثقافتی میلے کا انعقاد کیا گیا۔اس میلے میں پاکستان کے چاروں صوبوں کی تہذیب و ثقافت کی نمائش کی گئی تھی اس میں ایک تاثر یہ بھی اترا کہ جیسے چار زبانوں اور چار تہذیبوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ بھی کہ اس طرح الگ الگ تہذیب و ثقافت کو اجاگر کرنے سے قومی یکجہتی کے تصور کی نفی ہوتی ہے اس وقت یہ تاثر بھی دیا گیا کہ اس طرح قوم پرستی کو ہوا ملے گی۔لیکن بنیادی طور پر اس کا مقصد ہر علاقے کی اپنی شناخت اور تہذیب و تمدن کے رنگ اجاگر کرنے تھے اور اس طرح کے ثقافتی دن ہم آج بھی بڑے فخر سے مناتے ہیں۔ اسی دور میں علمی و ادبی حلقوں کے لئے یہ خبر بڑی افسوسناک تھی کہ مصطفی زیدی نے خودکشی کر لی مصطفی زیدی اعلیٰ پائے کے شاعر اور ممتاز آئی سی ایس آفیسران میں شمار ہوتے تھے یہ مارشل لاء کا زمانہ تھا اس لئے تحریر و تقریر پر پابندی اور سنسر شپ تھی ۔ مصطفی زیدی یوں تو بڑی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے لیکن طبیعت میں سرکشی اور باغی پن تھا دل کی بات زبان پر لانے میں ہچکچاہٹ اور خوف محسوس نہیں کرتے تھے۔ یہاں زیدی صاحب کی ملاقات ایک پری چہرہ شہناز سے ہو گئی ان کے ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر دوست نے ان سے شہناز سے متعارف کرایا شہناز اور اس کا شوہر کوئی چھوٹا موٹا کام کرتے تھے شہناز ایک انتہائی دلکش خاتون تھی۔مصطفی زیدی شہناز کے ملکوتی حسن کے اسیر ہو گئے اور فرصت کے لمحات ا س کے ساتھ گزرنے لگے۔ایک دن مصطفیٰ زیدی اور شہناز گلشن اقبال کے ایک بنگلے میں گئے۔زیدی صاحب نے بنگلے کے چوکیدار کو چھٹی دیدی۔ اور خود شہناز کے ساتھ بالائی منزل کے کمرے میں چلے گئے۔ دن ڈھلتے شہناز نے پولیس کو اطلاع دی کہ مصطفی زیدی نے خود کشی کر لی۔پولیس فوراً موقع پر پہنچی جہاں شہناز نے پولیس کو بتایا کہ وہ زیدی صاحب کے ساتھ تھی انہوں نے چائے کی خواہش ظاہر کی میں نے انہیں چائے بنا کر دی انہوں نے چائے میں ایک گولی ملائی اور پی گئے۔اس کے پیتے ہی ان کی موت واقع ہو گئی۔شہناز کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس خبر نے پورے شہر میں سنسنی پھیلا دی۔مقدمہ چلا اور اس واقعے نے اتنی شہرت پائی کہ جب شہناز پیشی کے لئے عدالت میں آتی تو لوگ اس کے حسن کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے امڈ پڑتے۔ اخباری نمائندے شہناز کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے اس لئے انہوں نے بلا تکلف سب کچھ لکھ دیا تھا۔جس پر اس کے شوہر نے چراغ پا ہو کر کئی اخبارات کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ بھی کر دیا تھا۔