مولا مجھے تو لے لے بس اپنے حصار میں ہے اختیار میرا ترے اختیار میں عشق نئیؐ کی آگ میں ہو جائوں کاش راکھ شعلہ بجاں ہے شوق دل بے قرار میں یہ عقیدت کے پھول تھے جو دل میں کھلے خوشی پھیلی تو میں نے انہیں صورت سخن سجا دیا یہ آمد اتنی منہ زور ہوتی ہے کہ بیان میں نہیں آ سکتی پھر ایک اور شعر اترا کہ میں نے خدا کو سوچ لیا ماں کے روپ میں ،ستر ہزار پھول کھلے خارزار میں اک معجزے سے کم نہیں میری یہ آگہی، میں صبح دیکھتا ہوں شب اشک بار میں۔اس عقیدت بھری تمہید کے بعد آج مجھے کرکٹ پر اور کچھ جنیوا کانفرنس کے بارے میں اظہار کرنا ہے کہ ایک ساتھ ہماری معاشرت جڑی ہے اور دوسری کے ساتھ معیشت۔ حقیقت یہ کہ سیاست ہر دور میں موجود رہی ہے،سیاست سے تو خیر اب ادب بھی خالی نہیں۔ کرکٹ میں بڑی تبدیلیاں ہو چکی ہیں رمیض راجہ کی جگہ نجم سیٹھی آ چکے کہ کب سے ان کی نظر اس پر تھی ۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ اور اس کے ساتھ ہی شاہد آفریدی بھی ثمر بار ہو گئے ۔ یہ بات اپنی جگہ درست کہ ٹیسٹ میچز میں ٹیم کی کارکردگی اچھی نہیں رہی اور تیسراٹیسٹ سرفراز نے بچا لیا اس پر اس کی تحسین کرنی چاہیے ،مگر آپ تو بابر اعظم کی چھٹی کرنے کی سوچنے لگے ۔بات یہ ہے کہ بابر اعظم میں خامیاں ہونگی اور اس کی دوست نوازی کو ہم نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا مگر وہ غیر معمولی صلاحیتوں کا بڑا پلیئر ہے ،اور پھر اس نے حالیہ ون ڈے میں اپنی کلاس شو کر دی اور فخر زماں کی افادیت بھی بتا دی ،محمد رضوان نے کلاس کی اننگز کھیلی ،نسیم شاہ نے بھی اپنی ا دکھائی اور دوسری مرتبہ پانچ وکٹ حاصل کیں اور سجدہ ریز ہو گیا۔ بابر اعظم کے لب و لہجہ یہ ہمیں اعتراض ہے کہ اس نے سرفراز کے چار سال ضائع کرنے پر افسوس تک نہیں کیا اور ردعمل میں آگے نکل گئے، مگر وہ کیا کرے کہ جو فیصلے کئے وہ بابر کی کنسٹ کے بغیر کئے گئے ۔ بابر اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہایک نیچرل پلیئر ہے۔ اب ذرا جنیوا کانفرنس کے حوالے سے کچھ بات ہو جائے کہ حکومت کو ذرا سا ریلیف ملا ہے کہ کانفرنس میں پاکستان کے لئے 10.57ارب ڈالر امداد کا اعلان کیا گیا ،تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔دیکھا جائے تو سیلاب زدگان کے لئے امداد جو بے چارے ایک سال گزرنے کے بعد بھی بے گھر ہیں اور انتظار میں ہیں، میں پھر لکھ رہا ہوں کہ یہ پیسے سیلاب زدگان کے لئے ہیں۔ یہ میں اس لئے لکھ رہا ہوں کہ آ صف زرداری دور میں جب کسی نے کمبل اور کھجوریں بھیجیں تھیں، وہ بھی بازار میںبکی تھیں ،انور مقصود کی طنز درست ہے کہ اس سوال پر کہ ہم خوشحال کیسے ہو سکتے ہیں کہا گیا تھا کہ اگر ایک دو بڑے سیلاب اور آ جا ئیں، کم از کم حکمرانوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں ۔ جب 2005ء زلزلہ آیا تھا تو انہوں نے اس آفت پر ایک محکمہ بنا کہ بڑی بڑی تنخواہیں لی تھیں۔ منٹو کا افسانہ یاد آ گیا کسی کی مرگ پر غریب بچے کو پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہے تو وہ اپنی ماں یا باپ سے کہتا ہے کہ پھر کوئی کب مرے گا کہ اسے پیٹ بھر کر اچھا کھانا مل سکے ۔گویا پاکستان پر آفت آ تی ہے تو بے حسوں کی لاٹری نکل آتی ہے ۔مجھے سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ آ گئے کہ جب تھر میں سو سے زیادہ بچے مر گئے تو یہ لوگ وزٹ کرنے گئے تو وہاں ان لوگوں نے مرغن کھانا کھایا اور اگر میں غلط نہیں کہہ رہا تو کسی نے کہا تھا یہاں بچوں کا بھوک سے مرنا کوئی نئی بات نہیں سچ۔ مچ یہ بے حسی ہے ،بس ڈر بھی ہے کہ ملنے والی امداد سیلاب زدگان کے کام آئے ۔شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ ہ خود نگرانی کریں گے اور اس کے لئے باقاعدہ کمیٹی بنائی جا رہی ہے مگر مصیبت تو ہے کہ ماضی میں بھی کمیٹیاں بنتی تھیں۔ بلوچستان کی ایک وزیر خاتون تو بچوں کے دودھ کا فنڈ بھی کھا گئیں : اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے ہر بات پہ رونے کو کہاں سے جگر آئے سیاست میں ہر روز نئی نئی باتیں سا منے آ رہی ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو زچ کر رہا ہے۔ لگتا سارے ہی غصے میں ہیں اور نارمل نہیں رہے ۔ہرطرف سٹوریاں ہی سٹوریاں ۔پہلی مرتبہ جنرل (ر)باجوہ بھی باقاعدہ چومکھی لڑائی لڑنے پر آ گئے آخر میں ذرا سی بات ادب پر کہ ایک موٹی ویشنل سپیکر نے لوگوں سے پوچھا کہ کوئی احمد فراز کو جانتا ہے جب کوئی نہ بتا سکا کہ سپیکر نے انہیںاٹھارویں گریڈ میں ریٹائرڈ کر دیا۔ دکھ ہوا کہ موصوف کو فراز صاحب کے بارے میں کچھ نہیں پتہ وہ پروفیسر رہے، پھر نیشنل بک فائونڈیشن اور اکادمی ادبیات کے سربراہ بھی رہے۔ لوگوں نے کمینٹس کی برسات کر دی کہ آپ کا جو فیلڈ نہیں اس میں آپ نہ آئیں : کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو