ہمارے پاس حیرانی نہیں تھی ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی ہمیں ہونا تھا رسوا ہم ہوئے ہیں کسی کی ہم نے بھی مانی نہیں تھی کیا کیا جائے کہ ’’ہر اک حالت سے گزرا ہوں مگر اے دوست۔کوئی حالت بھی امکانی نہیں تھی‘‘ اس وقت بہت ہی دلچسپ صورتحال ہے کہ کسی کے منہ کی کڑواہت بڑھ رہی ہے کہ منہ میں آئی چیز نہ نگلی جا سکتی ہے اور نہ تھوکی جا سکتی ہے۔ وہ سب انجان بنے تھے بجا ہے۔کوئی بھی بات انجانی نہیں تھی میں کوئی بجھارت نہیں ڈال رہا کہ چور بعض اوقات بوکھلاہٹ میں خود کو چھپا نہیں پاتا۔چلیے پہلے ایک نہایت دلچسپ واقعہ احمد راہی صاحب کا سن لیں کہ ایک مرتبہ ان کے ہاں چوری ہو گئی اور وہ گھر سے باہر افسردگی میں ٹہل رہے تھے۔ہمارا دوست زاہد مسعود وہاں سے گزرا تو راہی صاحب کو دیکھ کر ٹھہر گیا اور ادب سے پوچھا راہی صاحب کیا ہوا؟ راہی صاحب بولے چوری‘ وہ طبعاً بہت اختصار سے بولتے تھے زاہد مسعود نے اگلا سوال داغ دیا کہ کیسے ہوئی چوری، راہی صاحب نے سوالیہ انداز میں دیکھا اور کہا میں کیتی اے؟یعنی کیا میں نے کی ہے۔ زاہد مسعود بوکھلا سا گیا اور فٹا فٹ اپنی بات میں وزن ڈالنے کے لئے وضاحت کرنے لگا نہیں راہی۔میرا مطلب تھا کوئی کنڈی کھلی رہ گئی یا راہی صاحب اسے روکتے ہوئے بولے مینوں تے لگدا اے چوری توں کیتی اے۔ میں نے ایک اور مختصر سا واقعہ بھی تو بتانا ہے کہ ایک چور سب کے ساتھ مل کر شور مچا رہا تھا کہ پکڑو پکڑو۔چوری کی گٹھڑی مگر وہاں پڑی تھی اور سب حیران تھے کہ آخر چور گٹھڑی باندھ کر چھوڑ کیوں گیا؟ چور نے ان کی پریشانی دور کرنے کے لئے کہا کہ اصل میں یوں ہوا ہو گا کہ چور نے گٹھڑی باندھی ہو گی پھر اسے اٹھایا ہو گا اور پھر وہ دیوار کو پھلانگنا چاہتا ہو گا مگر اتفاق یہ ہوا ہو گا کہ گٹھڑی سنبھلی نہیں گٹھڑی اس طرف گر گئی اور میں اس طرف جاگرا اس واقعہ کا خیال مجھے الیکشن کمیشن کے اعلان پر آیا کہ الیکشن 8اکتوبر کو ہونگے ہمیں تو یاد یہ پڑتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے کہا تھا کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان ان کے دائرہ اختیار میں نہیں اب تو ماہرین بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے بلنڈر کیا ہے۔ سراج الحق صاحب نے بھی کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کر کے غیر آئینی کام کیا ہے آرٹیکل 6لگ سکتا ہے یعنی جو انہوں نے چھکا لگایا ہے وہ کیچ بھی ہو سکتا ہے۔سراج الحق نے ایک اور بات بڑی اہم کہی ہے کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی لڑائی سے رہی سہی جمہوریت بھی ختم ہونے کا خدشہ ہے۔صدر علوی نے تو باقاعدہ وزیر اعظم کے نام خط لکھ دیا ہے ایسے ہی غالب یاد آ گئے: خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے خط کے مندرجات غلط نہیں ہیں کہ ان کے خیال میں ایگزیکٹو اتھارٹیز کے محکموں نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے اور یہ کہ انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کی معاونت کی جائے انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ وزیر اعظم نے کوئی بامعنی مشاورت نہیں کی۔مزید یہ کہ وہ سیاسی کارکناں کی گرفتاریاں روکیں۔اب اس خط پر کیا تبصرہ کیا جا رہا ہے جواب آں غزل کے طور پر وزیر داخلہ کا بیان ہی کافی ہے کہ صدر علوی اوقات میں رہیں۔ عمران خاں سے دہشت گردی کا جواب لیں۔خود ہی دیکھ لیں کہ معاملہ اچھا خاصہ گرم ہے ان کا کہنا ہے کہ ان کے لوگوں کو تو موت کی چکی میں بھی رکھا گیا بے شمار پیشیوں پر وہ حاضر ہوتے رہے۔جیلیں کاٹیں وغیرہ وغیرہ لطف کی بات تو یہ سب کچھ بندوبست کرنے کے باوجود نواز شریف کو اپنے ہاتھ سے ایک پنچھی کی طرح آزاد بھی تو خاں صاحب نے کیا تھا ایکٹنگ ہی ایسی تھی یا معاملہ کچھ اور تھا۔ دیکھا جائے تو خان صاحب غلطی کر جاتے ہیں موجودہ صورتحال بھی ان کے غلط فیصلے سے پیدا ہوئی کہ اب وہ اس فیصلے پر پچھتا رہے ہیں کہ کاش وہ پرویز الٰہی کی بات مان لیتے اور اسمبلیاں نہ توڑتے پرویز الٰہی ہی کیا سب لکھنے والے لکھ رہے تھے پرویز الٰہی تو سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں خان صاحب نے کسی زعم میں یہ سب کچھ کیا کہ سب پریشر میں آ جائیں گے ۔ اگر خان صاحب پنجاب اور کے پی کے میں رہتے تو مکالمہ کرتے اور پریشر ڈالنے کی پوزیشن میں ہوتے آنے والوں نے ایک تو وسائل استعمال کئے اور دوسرا پولیس اور رینجر کو آگے کر دیا کبھی خان صاحب ان کے ساتھ ایک پیج پر تھے تب مریم نے کہا تھا پیج بدل بھی سکتا ہے احتیاط لازم تھی۔ سوچنے والے سوچتے تو ہیں کہ اسمبلیوں سے باہر نکلنا ہی غلط تھا کہ اگر آپ اپوزیشن بناتے تو چند ماہ میں بہت کچھ ہو چکا ہوتا۔باقی تو شامل باجہ ہیں یا ن لیگ کو کھڑے رکھنا ان کی مجبوری ہے دیکھا جائے تو اصل معاملہ ہی پنجاب کا جہاں پیپلز پارٹی اپنی ساکھ کھو چکی ہے وگرنہ معاملہ کچھ اور ہوتا۔اب ن لیگ اس کے علاوہ کیا کر سکتی کہ وہی کرے جو وہ کر رہی ہے۔بوکھلاہٹ کا شکار ہے عوام صرف مفت آٹے وغیرہ کے ڈرامے سے مطمئن نہیں ہوںگے۔انہوں نے پٹرول کی گرانی کے باعث آنا جانا بھی چھوڑ دیا ہے۔آٹا بھی انہیں ٹاٹا کہتا جا رہا ہے آئی ایم ایف نے نظر رکھی ہوئی ہے وہ آٹے کا تھیلا جو سستا ہوا تھا پھر اپنی قیمت پر آ گیا ہے یعنی ڈبل اپ۔یہ بات خان صاحب کی درست ہے کہ 8اکتوبر کو بھی الیکشن نہیں ہونگے اس بات کو بھی یقینی کون بنائے کوئی بحران پیدا کیا جا سکتا ہے نواز شریف ابھی تک جرات نہیں کر سکے کہ عدالتیں ان پر عیاں ہیں۔ووٹ تو نواز شریف کا ہے مریم نے تو بلکہ تقسیم پیدا کی ہے۔آخر میں ہمارے دوست عزیز فیصل کا پیارا سا شعر: پہلو میں تیرے بیٹھنا چاہیں گے جب رقیب پڑھنے لگوں گا قومی ترانہ میں ایک دم ٭٭٭٭٭